ختنہ کب کرائیں
ختنہ کس عمر میں کرانا چاہیے اس کے متعلق کوئی حتمی تحدید منقول نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں عمل بھی مختلف رہا ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ختنہ کا حکم مشہور قول کے مطابق ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوا ، اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ختنہ تیرہ سال کی عمر میں کیا گیا تھا، البتہ ان کے بھائی حضرت اسحاق علیہ السلام کا ختنہ ساتویں دن ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسن وحسین کا ختنہ بھی ساتویں دن ہی کیا گیا تھا ، جب کہ حضرت ابن عباس کے مطابق اہل عرب کا معمول یہ تھا کہ وہ حضرات بالغ ہونے کے بعد ختنہ کیا کرتے تھے ، امام مالک ؒ اہل مدینہ کا عام معمول نقل کرتے ہیں کہ جب بچہ کے سامنے کے دانت ٹوٹنے کا وقت ہوجاتا تھا تب ختنہ کرایا جاتا تھا ۔ احناف کے یہاں ختنہ سے متعلق تحدید وقت میں بہت اختلاف پایا جاتاہے ۔ چنانچہ اس تعلق سے کتب فقہ میں مشائخ کے اقوال بہت مختلف ملتے ہیں ، مثلاً ساتواں دن، ساتواں سال، دسواں سال، بارہواں سا ل ، بلوغ کے قریب اور بلوغ کے بعد۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ بچے کی صحت اور قوتِ برداشت کو دیکھ کر ختنہ کیا جائے اور یہی درست بات ہے کہ وقت کے بارے میں کوئی تحدید نہیں ۔ (در مع شامی) اگر بچے میں قوت برداشت ہوتو جتنی جلدی ممکن ہوسکے اس کا ختنہ کرادیا جائے تاکہ تاخیر کی وجہ سے اس کے زخم مندمل ہونے میں دیر نہ لگے ، کیونکہ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی زخم ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔
ختنہ میں بلوغ تک تاخیر
ختنہ کرتے وقت بچہ کی سکت اور اس کی قوت برداشت کو مد نظر رکھنا چاہیے ، اگر اس میں ایسی قوت نہ ہو کہ وہ ختنہ کے زخم کو برداشت کرسکے تو ختنہ کرنے میں جلدی نہ کرنا چاہیے بلکہ اس میں قوت برداشت کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے ، جب اس میں تحمل