کسی نے بہت خوب کہا ہے ’’ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید ‘‘ اصلی مشک اپنے وجود کی خبر خود دیتا ہے ۔ اگرآپ دیکھتے ہیں کہ عطار مشک پیش کرنے کے بعد اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے، محاسن وفوائد کا طومار باندھنے لگے، تو آپ خود سمجھ جائیں کہ یہ سرے سے مشک ہی نہیں ، یا مشک تو ہے مگر اصلی نہیں ۔ یہی حال بڑے حضرت علیہ الرحمۃ کا ہے ، بخدا مجھے بڑے حضرت کے بارے میں از خود کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ کی عطر بداماں زندگی اپنے بارے میں خود خبر دے گی۔ اپنی عظمت کا اعتراف خود کروالے گی، اپنی وقعت دلوں میں خود بٹھا دے گی۔ بس آپ پڑھیے اور پڑھتے چلے جائیے ، سنیے اور سنتے چلے جائیے۔
اللّٰہ سے ہونے کا یقین
’’ حضرت میں ایک مدرسہ شروع کرنا چاہتا ہوں ‘‘
یہ جملہ ایک مولوی صاحب نے جو حضرت کے شاگرد اور سبیل الرشاد کے فارغ التحصیل تھے ، حضرت کی خدمت میں عرض کیا۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ یا بڑے حضرت کے لیے کوئی نیا اور عجیب سا جملہ نہ تھا، کرناٹک کے وادیٔ غیر ذی زرع میں اللہ تعالیٰ نے دینی علوم کی آبیاری کے لیے بڑے حضرتؒ کا انتخاب عالم بالا میں طے کردیا تھا۔ آپ آئے ، اور کرناٹک میں آپ کی آمد تھی کہ مساجد اور مدارس کی نئی فصل جنم لینے لگی، ایسے لوگ جنہیں دنیا کے کسی عہدہ کے قابل نہ سمجھ کر موذن بنادیا جاتا، سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہوچکے بوڑھوں کو کچھ اور نہ کر سکنے کی بنا پر امام بنادیا جاتا ، ق اور ک کے صرف چھوٹا اور بڑا ہونے کا فرق بتانے والوں کومدرسِ مکتب بنادیا جاتا … نکال نکال کر متدین عالم دین کو امام بنایا جانے لگا، مستند حافظ کو موذن بنایا جانے لگااور ماہر عالم کو مدرسِ مکتب کی مسند سونپی جانی لگی۔ فارغانِ سبیل الرشاد موقع موقع سے آتے کہ