شبِ برأت کی فضیلت اور احکام
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے افراد کو عمر مختصر عطا فرمائی ہے ۔ا س مختصر مدت میں مختصر عمل پر ثوابِ عظیم اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں ۔ یہ امتِ مسلمہ کی خصوصیات وامتیازات میں سے ہے کہ عمل قلیل اور تھوڑا ہوتا ہے ، مگر اس کا اجر او ر جزا اللہ تعالیٰ وافر مقدار میں عطا فرماتے ہیں ۔ جب کہ سابقہ امتوں کے افراد لمبی لمبی عمر پاتے تھے اور کئی ہزار سال تک اعمال صالحہ میں مشغول رہتے تھے ، مگر ان کوثواب اتنا ہی دیا جاتا ، جتنا ان کا عمل ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک ایسے آدمی کاتذکرہ فرمایا جو ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا ہے ۔ صحابہؓ کو اس پر رشک آیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لیے سورۂ قدر نازل فرمائی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ ان کی عمریں طویل ہوتی تھیں اور آپ ؐ کی امت کی عمریں بہت تھوڑی ہیں ۔ اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن سا معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے حبیب کو رنج ہوا۔ اس کی تلافی میں اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر مرحمت فرمائی۔
سورۂ قدر کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو مختصر عمر عطا فرمائی ہے ۔ لیکن کچھ ایام ، کچھ راتیں ، کچھ شب وروز ایسے عنایت فرمائے جو کئی ہزار برس کی عبادتوں اور اطاعتوں پر بھاری ہیں ۔ مثلاً شبِ قدر ہے ، شبِ برات ہے ۔ رمضان کے شب وروز ہیں ۔ جمعہ کے دن ورات ہیں ۔ الغرض انہی متبرک ومقد س راتوں میں سے ایک ’’شب برات‘‘ ہے ۔ جس کے معنی ہیں ایسی رات ، جس میں اللہ تعالیٰ مومن کو جہنم سے آزادی اور