بچہ کا ختنہ تو ہوا ، لیکن کچھ دنوں کے بعد اس کی کھال دوبارہ اتنی بڑھ گئی کہ اس کا حشفہ اس میں ڈھک گیا تو پھر ختنہ کرانا ہوگا اور اگر نصف سے زائد حشفہ ڈھکا نہیں ہے تو دوبارہ اس کی ضرورت نہ ہوگی۔
ختنہ کس سے کرائے ؟
اگر آدمی بالغ غیر مختون ہو اور ختنہ خود کرسکتا ہوتو بہتر یہ ہے کہ خود کرلے دوسرے سے نہ کرائے ۔ اور اگر خود نہ کرسکتا ہو تو اگر شادی شدہ ہو اور ا س کی بیوی یہ عمل جانتی ہو تو اس سے کرائے ۔ آج کل ختنہ عموماً اس کے ماہرین (جن کو حجام کہا جاتا ہے ) سے ہی کرایا جاتا ہے ۔ اور جہاں اس عمل کے لیے ڈاکٹر کی سہولت مل جاتی ہے تو ان سے بھی کرایا جاتا ہے ، موجودہ ماحول میں فضائی آلودگی کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ کسی ڈاکٹر کے پاس صاف ستھرے ماحول (آپریشن تھیڑ وغیرہ) میں ختنہ کرائی جائے ۔ البتہ اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ ختنہ خواہ جس سے بھی کرائی جائے ، وہ سنت کے مطابق ختنہ کرنا جانتا ہو، اگر کوئی غیر مسلم ڈاکٹر ختنہ کرنے میں ماہر اور تجربہ کار ہوتو اس کی خدمات لینے میں بھی مضائقہ نہیں ہے ۔ مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ نے اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا تھا کہ واقف کار غیر مسلم ڈاکٹر سے ختنہ کراناجائز ہے ۔ یہی حکم بچہ اور بالغ دونوں کے لیے ہے ۔
ختنہ کی اجرت
اگر بچہ کے پاس مال ہوتو ختنہ کی اجرت خود اس کے مال سے ادا کی جائے گی ورنہ اس کا باپ اجرت ادا کرے گا، ابن عابدینؒ لکھتے ہیں کہ اگر بچہ کے پاس مال نہ ہو تو اس کے ختنہ کی اجرت باپ پر لازم ہوگی۔ یہی تفصیل امام شافعی کے یہاں بھی ہے ۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ بچہ کے ختنہ کی اجرت خود اس کے مال سے ادا کی جائے گی اور اگر اس کے