خبر رقیب صاحب نے بآواز بلند سنادی۔
’بم ‘کا لفظ سن کر اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ،اَن دیکھی موت مرنا بھلا کون پسند کرے گا۔
بڑے حضرتؒ نے رقیب صاحب کی بات سنی،اک شکن چہرے پر نہیں ، ہنس کر فرمایا : جاؤ جی، کچھ بھی نہیں ہوتا، جاؤ‘‘ ۔
آج مدرسے کو پچاس سال ہونے آرہے ہیں ۔ بم تو دور کی بات ، کیا کسی کو معلوم ہے کہ سبیل الرشاد میں ایک پٹاخہ بھی پھوٹا ہے ؟؟؟
خدا تاقیامت مدرسے کو نظر بد سے بچائے ۔ آمین
رو شناسی
ہم لوگ دورۂ تفسیر وحدیث کے طالب علم تھے اور مدرسے کی جانب سے ہمارے لیے ماہانہ وظیفہ دیاجاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت کچھ زیادہ بیمار ہوگئے ۔ دو ماہ بعد کچھ شفایابی ہوئی تو درس میں تشریف لائے۔ چونکہ آپ دو ماہ سے نہیں آئے تھے لہٰذا ان دومہینوں کا ہمار ا وظیفہ بھی نصیب نہ ہوا تھا، وظیفہ دیتا کون ، اس کے لیے حضرت کی اجازت کی ضرورت تھی، آپ کے درسگاہ میں آنے سے قبل ہم ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ پہلے حضرت کی مزاج پرسی کریں گے ، اس کے بعد آہستہ سے وظیفہ کی بات کریں گے ۔
حضرت تشریف لائے ۔ ہم نے مزاج پرسی کی۔
چلیے یہ کام تو ہوا، اب وظیفہ کے بارے میں بات کرنا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ بات کرے کون ؟ بھلا کسے ہمت تھی کہ حضرت سے وظیفہ پوچھتا ۔ ہم آپس میں کانا پھوسی کررہے تھے ، اور اشارے کررہے تھے کہ یہ بات تم کہو، تم کہو، اتنے میں بڑے حضرت