غلامی سے آزادی کی طرف۔۔۔۔۔۔۔
(آزادی صرف حکومت بدلنے کا نام نہیں بلکہ اصل آزادی روح اور ذہن کی آزادی ہے ، سوچ اور فکر کی آزادی ہے ۔ اسی طرح غلامی صرف حکومتی سطح پر غلام اور ماتحت رہنے کا نام نہیں بلکہ ذہن ودماغ کی غلامی اور غلامانہ سوچ وفکر ہی اصل غلامی ہے ۔ زیر نظر مضمون میں غلامانہ سوچ اور خود مختارانہ فکر وخیال کی ہلکی سی تصویر کشی کی گئی ہے )
صبح کا تڑکا ہوا ، اور سورج کی پہلی کرن نینا اور نینو کے پنجرے پر پڑی۔
’’اٹھو نینو ! ابھی تک تمہاری اونگھ ختم نہیں ہوئی ، بس تھوڑی ہی دیر ہوگی کہ لالہ جی آئیں گے اور ہمیں پیار بھری نظروں سے دیکھ کر دانہ پانی دیں گے ‘‘ نینا نے نینو کو جھنجھوڑتے ہوئے اٹھادیا۔
’’اونہہ، اس میں کون سی نئی بات ہے جو تم اتنا شور مچار رہی ہو، وہی صبح ، وہی لالہ جی کا کھوسٹ چہرہ ، اور وہی پرانے طرز کا دانہ پانی، لالہ جی کو اتنا خیال نہیں آتا کہ اگر ہمیں اپنے پنجرے میں بند کرہی دیا ہے تو کم از کم عمدہ کھانے پینے کا انتظام تو کردیتا ۔ دو چار ہری مرچیں دینے سے اس کی لاکھوں کی جائیداد میں کون ہی کمی آجائے گی ۔ اور رہے امرود ، وہ تو شاید ہمیں مرنے کے بعد ہی ملیں گے ، جنت میں ‘‘ ۔نینو نے جاگتے ہی بھاشن شروع کردیا تھا۔
نینا نے ہانڈی سے باہر نکل کر پورے پنجرے کا ایک چکر لگایا ، پھر دوبارہ نینو کے بازو میں جاکر بیٹھ گئی۔
’’کیا دیکھ آئی ہو‘‘ نینو نے پوچھا ۔
’’کچھ نہیں ، کل کا پانی میلا ہوگیا ہے ، پینے کے قابل نہیں ۔ دانے بھی ختم ہوگئے