واشاعت کے لیے کمر کس لی۔
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ کا نام لے کر اخلاصِ نیت کے ساتھ دین کی کسی خدمت کے لیے اٹھتا ہے تو اسے معاونین ورفقائے کار بھی ایسے ہی ملتے ہیں جو مخلص، سعادت مند اور محنتی ہوتے ہیں ۔ یہی حال بڑے حضرت کا تھا، جب آپ نے دارالعلوم سبیل الرشاد کے نام سے ایک چھوٹے سے مدرسے کی بناء ڈالی ، تو اس پودے کی آبیاری کرنے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے آپ کو مخلص رفقائے کار کی ایک ایسی جماعت ملی جس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔
آج کے اس مبارک موقع پر جب کہ دارالعلوم اپنی تاسیس کے پچاس سال مکمل کرنے پر بارگاہِ ایزدی میں سجدۂ شکر بجالاتے ہوئے جشنِ زریں کا انعقاد کررہا ہے ، آئندہ سطور میں دارالعلوم کے چند اساتذہ کا ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنہوں نے اس ادارے کو پروان چڑھانے میں اپنا خونِ جگر صرف کیاہے ۔دارالعلوم سبیل الرشاد کے تمام ہی اساتذہ خواہ انہوں نے تا حیات مدرسہ میں خدمت انجام دی ہو، یا ایک محدود عرصے تک دارالعلوم کی خدمت کی ہو ، اس کے مستحق ہیں کہ ان پر ایک تحقیقی تصنیف قلمبند کی جائے ، تاہم سرِ دست بعض اساتذہ کا نہایت مختصرتذکرہ درج ذیل ہے ، لَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمراً
حضر ت مولانا نیّر ربانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
میرے مشفق استاذافضل العلماء حضرت مولانامحمد اسماعیل صاحب ، المعروف بہ ’’نیر ربانی صاحب‘‘ دارالعلوم سبیل الرشاد کے ان عظیم المرتبت شخصیتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی اس مدرسے کو ترقی دینے میں وقف کردی۔ آپ اپنے لیے کم