معاشرے کی بد نظمیاں اور ان کا سد باب
جب بچی جوان ہوجاتی ہے تو والدین کو یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ جلد سے جلد جہاں کہیں سے بھی رشتہ آئے چاہے بر سرِ روز گار ہو یا نہ ہو، دیندار متقی پرہیز گار ہویا نہ ہو ، بچی کی شادی کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں ۔ پوری طرح سے یہ تحقیق بھی نہیں کرتے کہ لڑکے کا بیک گراونڈ کیسا ہے ۔ اس کے اخلا ق وکردار کیسے ہیں اور وہ لڑکا کچھ کماتا بھی ہے یا نہیں ۔
اس لیے منگنی سے پہلے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ لڑکے کے متعلق صحیح طریقے پر اور پوری طرح سے تسلی کرلیں ، اور مکمل طورپر تسلی ہوجانے کے بعد رشتہ مضبوط اور پکا کریں ۔ منگنی ہوجانے کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ میاں بیوی کو ان کے آپس کے حقوق سمجھاتے رہیں ۔ لڑکی کو یہ بتایا جائے کہ شوہر کیا ہوتا ہے ، اس کا مقام ومرتبہ کیا ہے ۔ سسرال میں لڑکی کو کس طرح رہنا چاہیے اور ساس اور سسر کا مرتبہ کیا ہے ؟ لڑکے کے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکے کو سمجھائیں کہ بیوی کی حیثیت کیا ہوتی ہے ، اور اس کے حقوق کیا ہیں اور بیوی کے ساتھ کس طرح زندگی گزارنا چاہیے ۔ اگر شادی سے پہلے ہی دونوں کو ان تمام باتوں کا علم ہوجائے تو انشاء اللہ قوی امید ہے کہ شادی کے بعد کسی طرح کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ اور معاشرہ بہت ساری خرابیوں سے پاک ہوجائے گا۔
حضرات علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو زندگی کے ہر مرحلے کی رہنمائی کریں ، خصوصاً ازدواجی زندگی کے مسائل وغیرہ معلوم کرانا ضروری ہے ۔ نکاح کی محفل اس کے لیے ایک بہترین موقع ہوتا ہے ۔ اس لیے نکاح پڑھانے والے کو چاہیے کہ نکاح سے