کاٹنے کا حکم صادر کروں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات میں عدلیہ کی آزادی کو ثابت کرنے کے لئے یہ ایک واقعہ کافی ہے۔
قانون کی بالادستی کا جو تصور اسلام نے پیش کیا تاریخ گواہ ہے کہ اس جیسا نظام کسی اور نے ماضی میں پیش نہیں کیا اور قیامت تک کوئی قوم یا دستور ساز اسمبلی پیش نہیں کرسکتی ۔
جس قوم کا عدلیہ آزاد نہ ہو وہ خواہ ہزاروں آزادی کے نعروں کے باوجود آزاد نہیں ہے ۔ آزادی کے لئے قانون کی بالادستی چاہئے ، آزادی صرف چند مالداروں کی خوشحالی کا نام نہیں ہے بلکہ ہر غریب سے غریب تر انسان کا انسان ہونے کی حیثیت سے بنیادی حق ہے ۔ ہم نے آزادی کو نعروں تک محدود رکھا ہے ، ہمارا لیگل نظام آزاد نہیں ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پوری آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں
معاشی آزادی
معاشی استحکام انسان کی آزادی کا ایک اہم حصہ ہے ، جب تک قوم معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوجاتے یا مستحکم کرنے کا کوئی مؤثر لائحہ عمل پیش نہیں کیا جاتا اس وقت تک آزادی کا دعویٰ عبث کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ وہ غریب جو سودی قرضوں کی لعنت میں جکڑا ہوا ہو اس کو آزاد کیسے کہا جاسکتا ہے ، وہ تو ہر طریقے سے مہاجنوں اور بینکوں کا غلام ہوگا ۔ سود پر قرض لینے والی عورتیں اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے جسم فروشی پر آمادہ ہوجاتی ہیں ، یہ صرف نظریہ نہیں بلکہ واقعہ ہے اور حقیقت پر مبنی واقعہ ہے کہ عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں ، شریفوں کی شرافت تار تار ہے ، سود کی شکل میں لوگوں کا خون چوسا جارہا ہے اور پھر یہ دعویٰ ہے کہ ہم آزاد ہیں ؟
آج سے تقریبا۱۴۰۰ سال پہلے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دکھتی رگ