کے سلسلہ میں بات کرنے کے لیے اور شب وروز مدرسے کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت مرحوم ؒ مدرسہ کے کاموں میں مصروف رہتے تھے ۔
حضرت والا کا معمول تھا کہ جب کبھی سفر میں ہوتے ، منگل کی شام ضرور مدرسہ آجاتے اور چہارشنبہ کی صبح نماز فجر میں قرآن خوانی کراتے ، پورے ہفتہ میں جتنے خطوط آئے ہوتے ، جن میں قرآن خوانی کی درخواست ہوتی یا کوئی ایسے ہی زبانی حضرت کو کہا ہوتا تو اس کا نام نوٹ کرلیتے ۔ اور طلبہ دورانِ قرآن خوانی حضرت سے اپنے رشتے داروں کے انتقال کی خبر دیتے تو حضرتؒ اس کو بھی نوٹ فرمالیتے ، پھر ہر ایک کے لیے نام لے لے کر دعائے مغفرت فرماتے ۔
حضرتؒ کی دعا بڑی رقت آمیز ہوتی، جس میں دینی ودنیوی تمام امور شامل ہوتے ، وہیں اکابرین کی صحت کے لیے بھی دعا فرماتے ۔ خصوصاً امیر شریعت دامت برکاتہم کی صحت اور مدرسہ کی ترقی کے لیے دعا فرماتے ۔ حضرت کے انتقال کے بعد چہارشنبہ کو تمام طلبہ گویا منتظر تھے کہ حضرت نماز فجر کے بعد آئیں گے اور قرآن خوانی کرائیں گے ، لیکن ہائے افسوس ۔ اب حضرتؒ کبھی آنے والے نہیں ۔ اب تو ہم خود حضرت کے لیے قرآن خوانی کررہے ہیں ۔ سوچے تھے کہ حضرت والا دعا کے لیے تشریف لائیں گے ، لیکن اب ہم خود دعا کررہے ہیں اس محسن کے لیے جو تمام کے درد بانٹ لیا کرتا تھا ، آنکھیں اشکبار ہیں ، دل غم میں ڈوبے ہوئے ہیں ، بے چینی بے کیفی کا عالم ہے ۔
زندگی انسان کی مانندِ مرغِ خوشنوا
شاخ پر بیٹھا تھا کوئی چہچہاتا اڑگیا
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرحوم کو غریقِ رحمت فرمائے ۔ جملہ متعلقین کو ، رشتہ داروں کو اور دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کو بھی صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ (آمین )