غلاموں کے سلسلے میں ایک اہم حکم یہ دیاگیا کہ غلام رکھنے والے وہی کھانا غلاموں کو کھلائیں گے جو خود کھاتے ہیں ، وہ پہنائیں گے جوخود پہنتے ہیں ۔ اس شرط پر بھلا کون کسی کوغلام رکھنا چاہے گا ؟مقصد یہی تھا کہ غلامی کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جائے اور اس کے لئے اسلام نے یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ۔اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ غلام بھی خاندان کا ایک رکن سمجھا جانے لگا ، غلام تعلیم یافتہ ہونے لگے ، یہاں تک کہ غلاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گورنر کا عظیم منصب بھی عطا فرمایا ، غلاموں کی ایسی حوصلہ افزائی فرمائی کہ غلام سپہ سالار بھی بنے ، مذھبی پیشوا اور قابل اقتدار بھی بنے ، امیر و وزیر بنے ، غرض یہ کہ غلامی کی جو بھیا نک شکل و صورت تھی اس میں شدت سے کمی آئی اور آہستہ آہستہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوا ۔
آمریت کی ممانعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عین عروج کے زمانے میں ایک اعرابی پہنچے اور عرض کیا انت ملک ، آپ ہمارے بادشاہ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں بادشاہ نہیں بلکہ اللہ بادشاہ ہیں ۔ یہ قول ایک ایسے پیغمبر کی زبان سے نکلا ہے جن کے وضو کا جھوٹا پانی بھی اپنے بدن پر ملنے کو قوم سعادت سمجھتی تھی ۔ جن کے ایک اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے میں عین کامیابی کا یقین تھا ، ان سب کے باوجود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ شاہانہ زندگی کو اپنے لئے پسند فرمایا نہ کسی طرح اس کی مشابہت کو اپنائی بلکہ حد تو یہ کہ بادشاہ کہلوانا بھی پسند نہیں فرمایا ۔ اسی طرز عمل کوخلفاء راشدین نے بھی اپنایا ۔
یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قسم کے اقتدار سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ، اگر کسی اور کو عطا کیا جاتا تو اس کا سب سے پہلا قدم اپنے لئے