ختنہ کی مشروعیت کی وجوہ
حضرات علمائے کرام نے ختنہ کی مشروعیت کے کئی اسباب بیان کئے ہیں ۔ تورات میں ہے کہ ختنہ اللہ پاک کا داغ ہے ، جس طرح شاہی گھوڑوں پر داغ ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ پاک نے اپنے خلیل اور ان کی اولاد کے لیے ختنہ کا داغ تجویز فرمایا اور قوت شہویہ اور بہیمیہ کے محل پر ختنہ کے داغ سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ عضو سرکاری داغ سے داغا گیا ہے ، بغیر سرکاری اجازت کے کسی مصرف میں اس کا استعمال جائز نہیں ۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم کو اپنے عزیز ترین بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا خواب میں اشارہ ملا تو انسان ہونے کے ناطے حضرت ابراہیم کے دل میں ایک قسم کا خوف پیدا ہوگیا ، اگرچہ یہ خوف حکم الٰہی کے بجالانے میں مانع نہ بن سکااور آپ دل وجان سے حکم خداوندی کو انجام دینے کے لیے تیار ہوگئے ، آپ کا یہ عمل اللہ پاک کو بہت پسند آیا اور آپ کو اس خوف کو امت محمدیہ میں ختنہ کی صورت میں برقرار رکھا گیا تاکہ ان کو بھی عضو مخصوص کے کاٹنے سے جو خون بہے اس سے خوف پیدا ہو اور پھر وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کریں اور اس طرح اسوہ ٔ ابراہیمی پر عمل ہوجائے ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں قلفہ (سپاری کی اوپری کھال جو ختنہ میں کاٹ دی جاتی ہے) ایک زائد عضو ہے ، جب تک اس کے اندر حشفہ (سپاری) چھپا رہتا ہے ، انسان کی قوتِ شہویہ کمزور رہتی ہے اور جماع میں اسے خاص لذت نہیں ملتی ۔ اس لیے اللہ پاک کی حکیم ذات نے اس زائد عضو کو کاٹ کر جدا کرنے کا حکم دیا تاکہ انسان جماع سے پورا لطف اٹھا سکے ۔
لیکن امام رازی کے نزدیک ختنہ کی وجہ اس سے بالکل مختلف ہے ، وہ فرماتے