ہمارے ملک میں طاعون اور دیگر مہلک امراض کا پھیلنا ، یہ نتیجہ ہے اپنے برے اور گندے اعمال کا۔ آج کل تو شادی کے کارڈوں میں یہ بھی لکھا جانے لگا ہے کہ فلاں دن آرکسٹرا ہوگا، گویا فسق وفجور کی کھلم کھلا دعوت دی جاتی ہے ۔ جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمام گنہگاروں کی معافی ہوسکتی ہے مگر جو کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں ان کی معافی نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی ستاری کا معاملہ فرماتا ہے مگر بندہ خود رات میں گناہ کرکے دن میں اپنی شان جتاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے فلاں کے ساتھ زنا کیا، شراب پیا، جوا کھیلا ، وغیرہ وغیرہ۔ اس بندے کو کثرتِ گناہ کی وجہ سے یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ گناہ کا کام ہے اور اس نے دوسروں کو گناہ کا کام بتا کر اپنے ہی خلاف گواہ بنالیا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے خدا نے مجھے مزامیر اور معازف کے مٹانے کا حکم دیا ہے ۔ مگر امت آج اس کو رونق دینے کا کام کررہی ہے ۔ اس طرح ناچ گانے والوں کو نماز جوکہ معراج المومنین ہے بھلا کیا خاک نصیب ہوگی۔ خود تو نماز نہیں پڑھتے ، دوسرے نمازیوں کی نمازوں میں خلل ڈالتے ہیں ۔ اور ان کی نمازوں کے برباد ہونے کا وبال انہیں ناچ گانے والوں پر پڑتا ہے ۔
ایمان کہاں رہا؟
جب ناچ گانے دیکھنا عام ہوجاتا ہے تو اس کی برائی بھی دلوں سے جاتی رہتی ہے ۔ یعنی یہ بات دل سے طوطے کے مانند نکل جاتی ہے کہ یہ برا کام ہے بلکہ اس کے برعکس ناچ گا کر فرحت اور خوشی محسوس ہوتی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان ہونے کی علامات کے طور پر ارشاد فرماتے ہیں اگر نیکی کرکے دل خوش ہو اور گناہ کرکے دل برا ہو یعنی ملامت کرے تو سمجھو تم مومن ہو۔گناہ کرکے دل خوش ہوتا ہوتو پھر ایمان کہاں رہا؟ یہ