ایک محل کی تعمیر کی طرف گامزن ہوتا ، وہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے اس بات کو یقینی بناتا کہ پوری مملکت میں اس جیسا طاقتور اور مالدار نہ ہو ، لذیذ کھانے پینے کی اشیاء اسی کے پاس زیادہ ہوں ، زندگی کی تمام آرائشیں اس کی رہائش گاہ میں سب سے پہلے لائی جائیں ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی آمریت کا خاتمہ فرمادیا اور آپ کے متبعین خلفاء نے بھی اسی راستے کو اپنایا ۔ یہ قدیم روایت کے خلاف سب سے اہم اقدام تھا کہ آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کیا جائے ، بے جا لوگوں کے مال کو غصب نہ کیا جائے بلکہ شرعی قوانین کی بالادستی کو حکمران بھی قبول کریں ۔
عدلیہ اور قانونی آزادی
مدینہ منورہ کے معزز قبیلہ بنو مخزوم کی عورت نے چوری کی اور اس کی سزا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا ۔ چونکہ ایک معزز خاندا ن کی عورت تھی بعض لوگوں نے حضور پاک علیہ السلام کی خدمت اقدس میں اس عورت کی سفارش کرنا چاہا اور اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے صحابی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے گذارش کی گئی۔ جیسے ہی حضرت اسامہ ؓ نے سفارش کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا یَا اُسَامَۃُ اَتَشْفَعُ فِی حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے اقوام کی ہلاکت اسی بنیاد پر ہوئی کہ وہ لوگ جب کوئی شریف اور باعزت گناہ کرتا تو اس سے چشم پوشی کرتے اور جب کوئی ضعیف گناہ میں مبتلا ہوتا تو حد جاری کرتے تھے ۔ آگے فرمایا کہ وَاَیْمُ اللّٰہِ لَو اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ سَرِقَتْ لَقَطَّعْتُ یَدَھَا اللہ کی قسم فاطمۃ بنت محمد بھی اگر چوری کرے میں اس کے ہاتھ