ہیں کہ مشروعیتِ ختنہ کی وجہ در حقیقت یہ ہے کہ حشفہ میں قوتِ حس زیادہ ہوتی ہے وہ جب تک قلفہ کے اندر رہتا ہے اس وقت تک جماع کے وقت غیر معمولی لذت محسوس ہوتی ہے لیکن جب قلفہ کو کاٹ کر جدا کردیا جاتا ہے تو حشفہ میں قدرے سختی آجاتی ہے ، جس سے لذت کم ہوجاتی ہے ، یہی شریعت اسلامی کے مناسب ہے کہ اس نے لذت کو بالکلیہ ختم نہیں کیا بلکہ اس میں اعتدال پیدا کیا۔
ختنہ کی شرعی حیثیت
احناف ومالکیہ کے نزدیک ختنہ سنت مؤکدہ اور شعار اسلام ہے ۔ جسے عام حالات میں چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ حضرت اوسؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ختنہ مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے خوبی اور شرافت کی بات ہے ۔ (شامی)
اس حدیث میں ختنہ کے سنت ہونے کی صراحت ہے ، جس سے دین میں ختنہ کے مسنون ہونے کا حکم معلوم ہوتا ہے ۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار میں ہے کہ حدیث کی روشنی میں ختنہ کرنا سنت مؤکدہ ہے اور شعائر اسلام میں داخل ہے ۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی بستی والے متفقہ طور پر اس اہم سنت پر عمل نہ کریں تو امام وقت کی ذمہ داری ہے کہ ان کو اس عمل پر مجبور کرے اور نہ ماننے کی صورت میں ان سے جنگ بھی کرسکتا ہے ۔ شوافع وحنابلہ ختنہ کے واجب ہونے کے قائل ہیں لیکن بقول علامہ شوکانیؒ صحیح بات یہ ہے کہ ختنہ کے دلائل نا کافی ہیں اور فطرت والی حدیث کی روشنی میں ختنہ کا سنت ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ ختنہ کے واجب ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے اور خمس من الفطرۃ اور اس جیسی دوسری احادیث کی روشنی میں ختنہ کا سنت ہونا یقینی ہے ۔