آخر اس مرض کی دوا کیا ہے ؟
پندرہویں لوک سبھا انتخابات میں جیت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہوئی ہو ، دو باتیں واضح طور پر ابھر کر سامنے آگئی ہیں ، (۱) ملک میں جمہوریت اور سیکولرازم کی جڑیں بہت مضبوط ہیں جنہیں مذہب ، ذات پات ، چھوت چھات اور مسالک وفرق کے نام پر کھوکھلا نہیں کیا جاسکتا۔ (۲) ہماری سر سبز وشاداب ریاست کرناٹک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی وہ صورتیں ابھی پیدا نہ ہوسکیں ، جو ملک کی دیگر ریاستوں میں کافی حد تک پائی جاتی ہیں ۔ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جہاں فرقہ پرست پارٹی بی جے پی کو نہ صرف یہ کہ آگے بڑھنے کا موقع نہ ملا، بلکہ اس کا کھلا ہوا کھاتا بھی بند ہوگیا۔ وہاں کے اقلیتی فرقوں بالخصوص مسلمانوں نے ایسے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا کہ ان کی حیثیت اقلیت ہونے کے باوجود کنگ میکر (بادشاہ گر) کی ہوگئی ہے۔
میری معلومات کی حد تک چار پانچ حلقے ضرور ایسے تھے جہاں اقلیتی امیدوار یا مسلم امیدوار کو بآسانی جتایا جاسکتا تھا ، بنگلور ساؤتھ سے کرشنا بائرے گوڑا، بنگلور سنٹرل سے ٹی ایچ سانگلیانہ ، اور بنگلور نارتھ سے سی کے جعفر شریف صاحب کو اقلیتی طبقے کے افرادبآسانی جیت سے ہمکنار کرسکتے تھے ۔ سب سے زیادہ افسوس بنگلور سنٹرل کے نتیجہ سے ہوتا ہے کہ جہاں اقلیتی فرقے سے وابستہ دو امیدواروں کی آپس کی لڑائی سے بی جے پی کے پی سی موہن کو کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھنے کا موقع مل گیا ، جب کہ الیکشن سے قبل یہ