کرفیو پاس
خالد اپنے والد کی عیادت کرکے واپس آرہا تھا کہ شہرمیں فساد پھوٹ پڑااور دیکھتے ہی دیکھتے فسادیوں نے شہر کے اکثر لوگوں کو لوٹنا اورجلانا شروع کردیا ،جب فساد تھوڑی دیر کے لیے رکا تو خالد اپنے گھر کی طرف رخ کرتا ہے اور اپنے محلے کے اکثر گھروں اور دکانوں سے نکلتی ہوئی آگ اور دھویں کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے ۔ اب سارے شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے ۔ خالد اپنے والدین کے لیے ایک ہی لڑکا ہے اور اس کی دو چھوٹی بہنیں اسما اور سیما ہیں ۔ اسماء ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے اور سیما پانچویں میں ۔ شہر میں کرفیو نافذ رہنے کی وجہ سے خالد کو اپنے والد کی عیادت کے لیے جانا دشوار ہوجاتا ہے ۔ اضطرابی عالم میں اس کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیا کرے ؟ خالد اپنے محلے کے تھانے میں جاتا ہے اوراپنے والدکے بیمار ہونے کی اطلاع دیتا ہے ۔ پولیس والے اس کو کرفیو پاس دینے سے انکار کردیتے ہیں ، خالد بہت ہی منت سماجت کرتا ہے مگر پولیس والے اس کو دھتکار دیتے ہیں ’’جاؤ ہر کسی کو یہاں پر پاس نہیں دیا جاتا‘‘ خالد مایوس ہوکر اپنے گھر لوٹتا ہے اور خدا کے حضور بہت ہی گڑگڑاتا ہے ، اس کو تسلی دینے والا بھی کوئی نہیں ، اس لیے کہ خالد ہی گھر میں بڑا لڑکا ہے ۔ خالدکی ضعیف دادی اور دو بہنیں اسے تسلی دیتی ہیں ، خالد کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اسے اپنے والد کو دیکھے بغیر ایک دن گذر گیا ہے ۔
محلے کے نوجوانوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے تو محلے کے نوجوان سب مل کر تھانے پہنچ جاتے ہیں اور خالد کے واسطے کرفیو پاس دلادیتے ہیں ، مگر شہر میں کرفیو ہونے کی وجہ