اصلاح معاشرہ کے ذمہ داروں سے چند گزارشات
پچھلے دنوں شہر میں ایک اور بچی حمیرہ جہیز کی لعنت کی بھینٹ چڑھی تو ہمارے نوجوانوں کا گرم خون جوش مارنے لگا۔ انجمن اصلاح معاشرہ کچھ فعال ہوئی تو سینکڑوں افراد اس کا ساتھ دینے کے لیے کمربستہ ہوگئے ۔ اخبارات میں اصلاح معاشرہ کے تعلق سے اظہار خیال ہورہا ہے اور انجمن اصلاح معاشرہ کو طرح طرح کے مشورے دیے جارہے ہیں ، مسلم معاشرے کی بہت بڑی خوبی ہے کہ قوم کے کسی فرد واحد پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو پوری قوم چیخ اٹھتی ہے ۔ یہ اس حدیث مبارکہ کے عین مطابق ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ مومنوں کی مثال محبت کرنے ، رحم کرنے اور ہمدردی کرنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی کیفیت ہوتی ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم بیمار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے (بخاری مسلم) یعنی اہل ایمان رشتۂ ایمان کی بنا ء پر ایک جسم کے اعضاء کی طرح مربوط اور ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معصوم لڑکی پر جہیز کی وجہ سے مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور وہ تنگ آکر خود کشی کرلیتی ہے یا اس کو قتل کردیا جاتا ہے تو پورے مسلم معاشرے میں ایک کھلبلی مچ جاتی ہے ، مگر اس کا ایک تاریک پہلو اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ تمام تجاویز اور مشورے صرف زبان وقلم کی حد تک ہی رہتے ہیں اور کوئی مثبت اقدام نہیں ہوپاتا۔ اور یہ احساس اور ردِ عمل بھی دیر پا نہیں رہتا اور جلد ختم ہوجاتا ہے ۔
سات سال پہلے دسمبر۱۹۹۱ کو دارالسلام کے ہال میں اصلاح معاشرہ پر ایک