حدہوتی ہے ، اس حد تک اس کا استعمال ہوگا، اگر اس قدر اس کو استعمال کیا جائے کہ مقصد فوت ہوجائے اور ایسی شکل سامنے آئے کہ ضرورت ہی مقصد بن جائے تو پھر انسان افراط وتفریط کا شکار ہوگااور گمراہی میں پڑجائے گا ۔ اس حقیقت کو یوں سمجھا سکتا ہے کہ بیت الخلاء انسان کی ضرورت ہے ، اگر انسان ضرورت کے بقدر بیت الخلاء میں رہے تو بالکل ٹھیک ہے ، لیکن اگر انسان اسی میں رہنے لگے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک معیوب بات ہے ۔ بالکل اسی طرح بازار ہیں کہ وہاں جانے سے انسان اخلاقی اعتبار سے آلودہ ہوجاتا ہے اس لیے حدود کی پابندی کے ساتھ بازاروں سے تعلق رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
اللّٰہ کے خاص مہمان
جو بندہ جس وقت بھی صبح یا شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ اس کے واسطے مہمانی کا سامان تیار کرتا ہے وہ جتنی دفعہ بھی صبح وشام کو جائے ۔ جس بندے کی مہمان نوازی کا سامان خود اللہ رب العزت فرمائیں توظاہر ہے کہ وہ اپنی شان کے اعتبار سے ہی مہمان نوازی فرمائیں گے اور جو اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے اس کا تو انسان بھی تصور نہیں کرسکتا ۔ ہم بار بار مسجدو ں میں جاتے ہیں ، دن اور رات میں پانچ پانچ مرتبہ روزانہ مسجد کے اندر جاتے ہیں لیکن ہماری نیتیں محدود ہوتی ہیں ، ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ بس نماز پڑھنا ہے اور پھر لوٹ آنا ہے ، یہ نیت بالکل سطحی اور محدود نیت ہے ، ان احادیث کی روشنی میں ایک بندہ مومن کو چاہیے کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوتو یہ تصور اس کے دل ودماغ میں ضرو رہو کہ وہ ایک حقیقی مالک وخالق اور پاک پروردگار کے دربار میں داخل ہورہا ہے ۔میں اس کا مہمان بن کر جارہا ہوں وہ میرا میزبان ہے ۔ میں اس کو خوش کرنے جارہا ہوں اور اس کی رحمتوں کو سمیٹنے اور برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اس کے گھر