ختنہ کی شرعی حیثیت
ختنہ تمام انبیاء کی مشترکہ سنت اور امور فطرت میں سے ہے ۔ اس کا شمار شعائر اسلام میں ہوتا ہے اسی لیے فقہائے کرام نے وضاحت فرمائی ہے کہ اگر کسی بستی کے لوگ متفقہ طور پر ختنہ کے عمل کو ترک کردیں تو امام ان کو اس عمل پر مجبور کرے گا اور نہ ماننے کی صورت میں ان سے قتال بھی کرے گا ، لہٰذا عام حالات میں کسی بھی مسلم معاشرے میں ختنہ کے ترک کی گنجائش نہیں ہے ۔ کئی احادیث مبارکہ میں مختلف طریق سے ختنہ کا ذکر ، اس کا امورِ فطرت میں ہونا اور انبیاء کے طریق میں سے ہونا مذکور ہے ۔
بعض احادیث میں اس کو حکم اور تاکید بھی آئی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ پانچ باتیں فطری امور کے قبیل سے ہیں ، ختنہ کرنا، زیر ناف بال کا مونڈھنا ،مونچھ تراشنا اور بغل کے بال صاف کرنا۔(بخاری)یہی حدیث حضرت عمار بن یاسر کی روایت سے ابوداؤد میں اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی روایت سے ترمذی نے بھی نقل کی ہے ۔حضرت کلیبؓ اسلام قبول کرنے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی تو بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ سر کے بال کٹاؤ اور ختنہ کرو۔ (فتح الباری) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ غیر مختون کی گواہی ، نماز اور اس کاذبیحہ قابل قبول نہیں ۔ (مرقاۃ )
ختنہ انبیاء کی سنت
اس بات پر تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ ختنہ تمام انبیاء کی سنت ہے ۔ البتہ