دینی مدارس میں اردو
میرؔ وغالبؔ کی جان ہے اردو
ہم سبھوں کی زبان ہے اردو
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
جیسا کہ سب جانتے ہیں لفظ اردو در اصل ترکی زبان کا لفظ ہے ، یہ لفظ مذکر ہے اور ترکی زبان میں لشکر یا لشکر گاہ یعنی چھاؤنی کے لیے بولا جاتا تھا ، لیکن آگے چل کر اس لفظ نے عورتوں کا جامہ زیب تن کیا اور مونث بن گیا۔ اب یہ لفظ عموماً مونث ہی استعمال ہوتا ہے اور بر صغیر میں سب سے زیادہ بولی جانے والے زبان کے لیے مستعمل ہے ۔
کہتے ہیں کہ زبانیں عموماً قوموں ، فرقوں اور تہذیبوں کی تصاویرہوا کرتی ہیں ، ہرزبان کسی ایک خاص فرقے ، مذہب یا تہذیب کی علامت اور نشان ہوتی ہے ۔ لیکن تمام زبانیوں کے درمیان میں سمجھتا ہوں کہ شاید اردو زبان ہی ایسی زبان ہے ، جیسے ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھوں نے اپنایا ہے ۔ تبھی تو کہا جاتا ہے کہ اردو کا الف اللہ کا پتہ دیتا ہے ، ر ، رام کی خبر دیتا ہے ، د ، دی گارڈ سے عبارت ہے اور و ، واہے گروہ کی نشاندھی کرتا ہے ۔ اس طرح یہ زبان بیک وقت مسلمانوں کی بھی زبان ہے اور ہندوں کی بھی بولی ہے ، عیسائیوں نے بھی