کیا عورتوں کی ملازمت مناسب ہے؟
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان گنت مخلوقات کو پیدا کیا ہے ، لیکن تمام مخلوقات میں انسان ہی کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے ، یہ شرف اس کو اس کی عقل ودانائی اور قوتِ گویائی کی بناء پر دیا گیا ہے ، اب اگر کسی میں یہ دونوں چیزیں یا کوئی ایک چیز نہیں رہی تو اس کو کامل انسان نہیں کہا جائے گا ، جب یہ کامل انسان نہ ہوا تو پھر اس کو کوئی اہم کام کا ذمہ داری یا کوئی عہدہ دینا غلطی ہوگی ۔
یہ بات تو طے ہے کہ عورت جس کو صنف نازک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے ناقص العقل قرار دیا ہے ، یعنی مرد کی بہ نسبت کم عقل اور کم سمجھ اور قوت میں کمزور بنایا ہے ۔ اب جس کو جتنی طاقت ہو اس کو اتنا ہی کام دینا چاہیے ، اگر ہم اس کی طاقت سے زیادہ کام اس کے سپرد کریں گے تو یہ سراسر ظلم ہوگا ، لہٰذا عورتوں کو گھریلو کام، بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی پرورش کی حدتک ہی اس کو عقل اور قوت دی گئی ہے ۔ اگر ہم اسے گھر سے باہر نکال کر آفس یا دفتر میں لا کھڑا کریں گے تو یہ صنف نازک پر بے جا ظلم ہوگا اور خدا ظلم کو ہرگز معاف کرنے والے نہیں ۔
یہ رہی علم کی بات ، اب ذرا آگے چلیے کہ ہم ذراٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ غور وخوض کریں تو پتہ چلے گا کہ دنیا میں جتنی برائیاں ہورہی ہیں اس کا اصل سبب عورت کا چراغِ خانہ سے شمعِ محفل ہوجانا ہی ہے ، عورت اگر آج عورت بن کررہے تو دنیا کی ۷۵ فیصد برائیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ آج آفسوں میں ، بینکوں میں اور نہ جانے کہاں