غیر مختون کا ذبیحہ
حضرت انس ؓ کا قول ہے کہ غیر مختون کا ذبیحہ درست نہیں ہے ۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت کردی جائے ۔ امام محمد سے بھی یہی منقول ہے کہ غیر مختون کا ذبیحہ حلال نہیں ہے ۔ لیکن ابن قدامہ ؒ نے لکھا ہے کہ اس کا ذبیحہ حلال ہے ،کیوں کہ یہ شخص مسلمان ہے اور مسلمان کا ذبیحہ بالاتفاق صحیح ہے ، لہٰذا اس کا ذبیحہ بھی جائز ہوگا ۔ نیز شریعت میں زانی قاذف اور شرابی کا ذبیحہ ان سب کے فسق کے باوجود صحیح ہے تو غیر مختون شخص جو ایک سنت اور اسلامی شعار کا تارک ہے وہ زیادہ سے زیادہ شرعاً فاسق کہلانے کا مستحق ہے تو اس کاذبیحہ کھانے میں کیا مضائقہ ہے ۔ اسی طرح اسلام میں اہل کتاب کا ذبیحہ کھانے کی اجازت ہے جب کہ وہ غیر مختون ہونے کے ساتھ کافر بھی ہے اور یہ شخص تو صرف غیر مختون ہے ، ایمان کی دولت تو بہر حال اس کے پاس ہے ، لہٰذا اس کا ذبیحہ کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس کا ذبیحہ بالکل حلال اور درست ہے ۔
غیر مختون شخص کا انتقال
غیر مختون شخص کا اگرانتقال ہوجائے تو احناف کے یہاں اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کا ختنہ نہیں کیا جائے گا ، اسی حالت میں اس کی تجہیز وتکفین کردی جائے گی ، البتہ فقہ حنبلی میں اس کے بارے میں دو روایتیں ملتی ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ اس کا ختنہ کیاجائے گا ، اس کے بعد تجہیز وتکفین عمل میں آئے گی۔ اور دوسری روایت فقہ حنفی کے مطابق ہی ہے کہ اس کا ختنہ نہ کیا جائے ، اس پر اکثر حنابلہ کا فتویٰ ہے ۔ علامہ ابن قدامہ نے بھی اسی روایت کو ترجیح دی ہے ۔