جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود
آج اس پر فتن دور میں اکثر مسلمانوں کو دیکھا جارہا ہے کہ اپنی رسوم اختراعیہ کے اس قدر پابندہیں کہ فرائض وواجبات کے قضا ہوجانے یا چھوٹ جانے کا بھی غم نہیں ۔ مگر ان من گھڑت رسومات میں رائی برابر کمی نہیں ہوتی۔ ان بری رسموں کی وجہ سے طرح طرح کی پریشانیاں ، تنگدستی اور مصیبت آگھیرتی ہے ، لیکن اس کا احساس بھی انہیں نہیں ہوتا کہ یہ سب اپنا ہی کیا کرایا تو ہے ، چونکہ ان بری رسموں کا رواج عام ہوگیا ہے اس لیے اس کی برائی بھی دلوں سے جاتی رہی۔ برے کام کرتے کرتے اس قدر عادی ہوگئے ہیں اور ایسا سمجھتے ہیں گویا یہ کوئی کارِ ثواب کررہے ہیں ۔ بعض امور کو تو اعتقاداً برا جانتے ہیں لیکن عملاً اس کو ہلکا اور معمولی سمجھتے ہیں اور اپنے کو اس کے کرنے میں معذور ومجبور جانتے ہیں ، بعض کو تو بالکل مباح اور حلال کہتے ہیں ، اس سے بڑھ کر غضب یہ کہ بعض کو طاعت وعبادت بنا چکے ہیں ، چونکہ اس میں دنیا کا نقصان اور عاقبت کا خسران تھا ، اس لیے ہمارے مسلم سماج کو اس پر آگاہ کرنا مقتضائے خیر خواہی اور ایما ن میں سے ہے ۔
آج کل شادیوں میں ناچ گانے کرانے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے ، جس میں مندرجہ ذیل برائیاں ہوتی ہیں : نامحرم عورت کو اہل مجلس دیکھتے ہیں جو کہ آنکھ کا زنا ہے ، گانے کی آواز سنتے ہیں جو کہ کانوں کا زنا ہے ، عورتیں اور مرد آپس میں باتیں کرتے ہیں جو کہ زبان کا زنا ہے ، اس طرح ہر عضو سے زنا صادر ہوتا رہتا ہے جس کا ہمیں احساس تک