فرمایا نکاح کا اعلان کیا کرو اور نکاح مسجدوں میں کیا کرو اور دف بجایا کرو،ہ نکاح چوری چھپے کرنے میں کئی قسم کی نامناسب باتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور طرح طرح کے مفاسد کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ نکاح علی الاعلان کیا جائے اور اسکی سب سے بہتر مفید اور آسان شکل یہی ہے کہ مسجد میں کسی نماز کے بعد اعلان کردیا جائے اس سے ایک طرف مسجد کی برکت بھی حاصل ہوگی اور لوگوں کو جمع کرنے میں جو عموما دشواریاں پیش آتی ہیں وہ دشواریاں بھی نہ ہونگی اور نمازیوں کی ایک مجلس ہی اس کے نکاح کی گواہ رہے گی اوراعلانِ نکاح کی غرض یہی ہے کہ مرد عورت کے درمیان ہر قسم کے خفیہ تعلقات کی جڑ کٹ جائے اور چونکہ حضور ﷺ کے زمانے میں نکاح اور شادی کی تقریب کے موقع پر دف بجانے کا رواج تھا جس سے اس خوشی کے موقع پر تفریح کا کچھ سامان بھی ہوجاتا تھا اس لئے آپ ﷺ نے دف بجانے کی اجازت دی۔
مہر کی حقیقت:
نکاح کرنے والا مرد اپنی بیوی کو جومعین رقم ادا کرتا ہے اس کو مہر کہتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں بھی عربوں میں یہ شریفانہ رواج قائم تھا کہ نکاح کرنے والا مرد اپنی بیوی کوایک معین رقم ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتا تھا۔ اس طریقہ کو اسلام نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسک کولازم بھی قرار دیا شوہر کا اپنی بیوی کو مہر کی رقم دینا اس کی اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس بیوی کاطالب اور خواستگار رہے بیویوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق مہر ہے جو شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے ۔
امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک مہر کی رقم کم سے کم مقداردس درہم (تقریباً دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی )ہے اور زیادہ مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں ، حسبِ حیثیت جتنا مہر چاہے رکھ سکتے ہیں ۔شریعت نے مہر کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں فرمائی