رسول اللہ ﷺ کا حکیمانہ اسلوبِ تبلیغ
دعوت خواہ کسی بھی چیز کی دی جائے خواہ وہ کسی نظریہ اور عقیدے کی دعوت ہو یا کسی دنیاوی مال ومتاع کے حصول کی دعوت ،اپنے اندر اثر انگیزی اور قوتِ تاثیر پیدا کرنے کے لئے داعی میں حکیمانہ و مشفقانہ اسلوبِ تبلیغ کی متقاضی ہوتی ہے ،پھر جس چیز کی طرف دعوت دی جارہی ہے، مدعوئین کے لئے وہ چیز جس قدر اجنبی تعجب خیز انوکھی بلکہ متنفر اور نفرت آمیز ہوگی ،داعی کو اس اجنبی چیز کی طرف دعوت دینے کے لئے اسی قدر حکیمانہ اسلوب ، تدبرانہ طریقہ اور مشفقانہ طرز عمل پیش کرنا ہوگا۔
رسول اکرمﷺ نے جب عرب کے لق ودق صحرا میں نخلستان میں اسلام کی تخم ریزی کی، اس وقت مذہبِ اسلام اپنے مدعویین کے لئے نہایت اجنبی، تعجب خیز، انوکھا اور نیا مذہب تھا۔ جو نگاہ اسلام کی طرف اٹھتی اس میں استعجابیہ نشان ہوتا جس کسی کو شعائرِ اسلام کی بھنک پڑتی وہ یوں متحیر و متعجب رہ جاتا گویا زمین پر زمینی نہیں بلکہ کسی اور سیارے کی مخلوق، عجیب و غریب حرکات و سکنات میں مشغول ہو۔
غالبا ًغزوہ تبوک سے واپسی کا موقع ہے ۔رسول خدا کا دارِ ہجرت مدینۃ النبی قریب آرہا ہے ، چند میل کی مسافت رہ گئی ہوگی لیکن رسول اکرم ﷺنے اپنے مظفر ومنصور اورفاتح لشکر کو پڑائو کا حکم دیا ۔آپ کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپ شہر میں رات کو داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ آپ کی کوشش ہوتی کہ دن میں داخل ہوں ،ڈیرے ڈال دئے گئے، خیمے نصب کردئے گئے، آس پاس کے گائوں میں عام شہرہ تھا کہ مدینہ (یثرب) میں ایک نئی قوم پیدا