کیا اتحادِامت ناممکن ہے ؟
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اسلام جہاں انفرادی زندگی کے بارے میں بہت سے ہدایات واحکامات دیتا ہے ، وہیں اجتماعی زندگی کے متعلق بھی بہت اہم اور قیمتی تعلیمات سے نوازتا ہے ، اسلام ہم سے خلوت میں جینے کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ ایک امت بن کر اجتماعیت کے ساتھ زندگی گزارنے کا تقاضہ کرتا ہے اور ایک ایسی امت بنانا چاہتا ہے جو اس طرح متحد نظر آئے جس طرح ایک امام کی اقتداء میں مقتدی متحد ومتفق ہوتے ہیں ، اور ایسی ملت بنانا چاہتا ہے جو حالات سے باخبر رہے ، مخلص اور خیر خواہ لوگوں کی اتباع میں اپنا سفر طے کرے ، ہشیاری ، بیدار مغزی ،تیقظ اور اجتماعی شعور کے ساتھ اپنی مسلمانیت کو ظاہر کرتے ہوئے سفر آخرت جاری رکھنے کادینِ اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے ۔
اسلام کا یہ مطالبہ اتنا ہی اہم اور قابلِ توجہ ہے جتنا تقویٰ طہارت ، نماز روزہ وغیرہ کے بارے میں ہے ۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب ایمان والوں کو تقویٰ کا حکم فرمایا تو اس کے فوراً بعد اتحاد واتفاق کی تلقین فرمائی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُو اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ’’اے ایمان والو، اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرا کروجیسا ڈرنے کا حق ہے ، اور اسلامِ کامل کے سوا کسی اور حالت پر جان نہ دینا ‘‘ یعنی تادمِ مرگ کامل تقویٰ پر اور اسلام پر قائم رہنا۔ نیز فرمایا وَاعْتَصِمُوا