جب کوئی شخص بیوی کواپنے گھر میں لائے تو اس کا مناسب اکرام کرے اور اسے ایک ایسا ہدیہ پیش کرے جو اسکے اعزاز واکرام کے مناسب ہو۔
لہٰذا شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کی رقم نہ تو اتنی کم رکھی جائے جس سے اعزاز واکرام کایہ پہلو بالکل مفقود ہواور نہ تو اتنی زیادہ رکھی جائے کہ شوہر اسے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور بالآخر یا تو مہر ادا کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائے یا آخر میں بیوی سے معاف کرانے پر مجبور ہوشرعی نقطۂ نظر سے ہر عورت کا اصل حق یہ ہے کہ اسے مہر مثل ادا کیا جائے ۔ مہر مثل کا مطلب مہر کی وہ مقدار ہے جو اس عورت کے خاندان میں عام طورسے اس جیسی خواتین کے نکاح کے وقت مقرر کی جاتی رہی ہواور اگر اس عورت کے خاندان میں دوسری عورتیں نہ ہو تو خاندان سے باہر اس کے ہم پلہ خواتین کا جو مہر عام طور سے مقرر کیا جاتا ہووہ اس عورت کامہر مثل ہے اور شرعی اعتبار سے بیوی مہر مثل وصول کرنے کی حقدار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر نکاح کے وقت باہمی رضامندی سے مہر کا تعین نہ کیا گیا ہو یا مہر کا ذکر کئے بغیر نکاح کر لیا گیا ہو تو مہر مثل خود بہ خود لازم ہوجاتاہے اور شوہر کے ذمہ شرعاً ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ بیوی کو اس کا مہر مثل ادا کرے البتہ اگر خود بیوی مہر مثل سے کم پر خوشدلی سے راضی ہوجائے یا شوہر خوشدلی سے مہر مثل سے زیادہ مہر مقرر کرلے توباہمی رضامندی سے مہر مثل سے کم یا زیادہ مقررکر لینا بھی شرعا جائز ہے۔
مہر کی مقدارکامسئلہ:
یہاں بھی شریعت نے زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی البتہ کم سے کم مہر کی حد مقرر کر دی ہے اور وہ حد(حنفی فقہ کے مطابق) دس درہم ہے۔
دس درہم کا مطلب دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے ، اس کم سے کم