رواج کے مطابق اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ مہر کی یہ مقدار اس وقت واجب الادا ہوگی جب نکاح ختم ہوگا یااگر طلاق ہوجائے تب مہر مؤجل کی ادائیگی لازم ہوگی یا میاں بیوی میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تب اس کی ادائیگی لازم سجھی جاتی ہے۔
ایک اور نکتہ یہ قابل ذکر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شوہر کی طرف سے دلہن کو جو زیور دیا جاتا ہے اس کا بذاتِ خود مہر سے کوئی تعلق نہیں ہوتااس زیور سے مہر ادا نہیں ہوتا ہاں اگر شوہر بیوی سے صراحتاً یہ کہہ دے کہ یہ زیور میں نے بطورِ مہر تمہاری ملکیت میں دیدیا تو پھر اسے مہر میں شمار کر سکتے ہیں اس صورت میں بیوی اس زیور کی مالکہ بن کر اس میں ہر طرح کا تصرف کر سکتی ہے اور اسے کسی بھی حالت میں اس سے واپس نہیں لیا جاسکتا اس کے علاوہ اگر شوہر اس زیور کے بارے میں بیوی سے اس بات کی صراحت کردے کہ یہ تمہاری ملکیت ہے اور اس کو مہر میں شمار نہ کرے تو پھر یہ بیوی کی ملکیت شمار ہوگا اور مہر الگ سے دینا ہوگا۔ بہرِ صورت یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مہر کا تعین محض ایک فرضی یا رسمی کاروائی نہیں ہے جو سوچے سمجھے بغیر کر لی جائے بلکہ یہ ایک دینی فریضہ ہے جو پوری سنجیدگی کا متقاضی ہے ۔ یہ ایک معاملے کی بات ہے اس کے پورے پہلو صاف اور واضح ہونے چاہئے اور اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے یہ بڑی ناانصافی کی بات ہے کہ اس حق کی ادائیگی سے ساری عمر بے فکر رہنے کے بعد بستر مرگ پر بیوی سے اس کی معافی حاصل کرلی جائے جب ماحول کے جبر سے اس کے پاس معاف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
مہر ادا کرنے کے آسان طریقے:
یہاں پر ہم ان شوہروں کے لئے مہر ادا کرنے کے چندآسان حل تحریر کرتے ہیں کہ جب ان کی شادیاں ہوئیں اس وقت