وبرداشت کی صلاحیت پیدا ہوجائے تب ختنہ کرنا چاہیے ۔ صحت کی کمزوری اور دیگر عوارض کی وجہ سے اگر جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتو پھر ختنہ میں بلوغ تک تاخیر جائز ہے ، لیکن ترک ختنہ کسی حال میں جائز نہیں ۔ عزیز الفتاویٰ میں ہے کہ ایک شخص نے اپنے تین بچوں کو دیکے بعد دیگرے ختنہ کرایا اور تینوں بچے دو تین دن کے بعد یکے بعد دیگرے تپ وبخار میں مبتلا ہوکر فوت ہوگئے ، اب وہ شخص اپنے چوتھے بچے کی ختنہ کرانے کے سلسلے میں مترددتھا اور مفتی عزیز الرحمن صاحب سے اس سلسلے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواباًتحریر فرمایا ’’ صورت مسئولہ میں ترک ختنہ جائز نہیں ہے ، لیکن تاخیر بلوغ تک درست ہے ، اچھے موسم میں اور جب کہ وہ لڑکا متحمل اس کا ہوسکے ، ہوشیار شخص سے ختنہ کرائی جائے ۔
غیر مختون بالغ کا حکم
کسی عذر کی بناء پر اگر کوئی بالغ ختنہ نہ کراسکا ہو ایا ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوا ہو اور وہ مرض وغیرہ کی وجہ سے ضعیف وناتوان ہوتو ختنہ کا تحمل آجانے تک انتظار کیا جائے اور اس کے بعد اس کا ختنہ کیا جائے اور اگر اسے تحمل وبرداشت نہ ہو تو یونہی چھوڑ دیا جائے ، ختنہ کرانا ضروری نہیں ، لیکن بلا کسی عذر کے بلوغ کے بعد بھی ختنہ نہ کرنے پر اصرار جائز نہیں ۔ اگر کوئی شخص ختنہ کے سنت ہونے کا قائل ہے او ر اسے شعارِ اسلام میں سے ہونا جانتا ہے ، خیر ختنہ کرانے میں جان یا عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ بھی نہیں ہے ۔ پھر بھی وہ لاپرواہی ، مستی اور غفلت کی بناء پر ختنہ سے گریز کرتا ہے تو اس کا یہ فعل چونکہ گناہ پر اصرار کرنے کے مرادف ہے ، اس لیے وہ شرعاً فاسق شمار ہوگا، مجمع البحرین میں ہے ’’ اگر کوئی شخص وجوب ختنہ کا قائل ہو اور ختنہ کرانے میں کوئی ضرر بھی نہ ہو پھر بھی ختنہ نہ کرائے تو وہ شخص شرعاً فاسق ہے ۔