جارہا ہوں ۔اس کے مقدس دربار میں اس کی بڑائی بیان کروں گا، اس کی حمد وثناء کروں گا، اس کے سامنے با ادب ٹہروں گا، اس کے سامنے جھکوں گا۔اپنے اس عمل سے اس کو خوش کروں گا اور وہ میری مرادوں کو پورا کرے گا ، وہ اپنے درسے خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔ میں اس کو اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے ، اگر ان جذبات کے ساتھ ایک بندۂ مومن مسجد میں داخل ہوگا تو ظاہر ہے اس کے دل کو تازگی اور اس کے دماغ کو سکون ملے گا، یہ تو نقد فائدہ ہے اور پھر مرنے کے بعد جنت کی وہ نعمتیں جس کو نہ کسی نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا ، اور نہ کسی دل میں اس کا تصور پیدا ہوا، جو بطور مہمان نوازی کے دی جائیں گی۔
مسجد سے ہمارا تعلق
جس طرح بندے کا اپنے رب سے تعلق ہونا چاہیے ، اسی طرح اس کا اس کے گھر یعنی مسجد سے بھی تعلق ہونا چاہیے ۔ ایک مومن اگرچہ صرف نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آتا ہے پھر چلا جاتا ہے لیکن ایک سچے اور پکے مومن کے دل میں بار بار مسجد آنے جانے کی وجہ سے ایک ایسا تعلق مسجد سے ہوتا ہے کہ وہ کسی نماز کے بعد اپنے گھر جاتا ہے تو اہل وعیال میں گھل مل جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس کے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اللہ کے دربار میں جانے کا وقت تونہیں ہوگیا۔کہیں کسی نماز میں غیر حاضری تو نہیں ہوجائے گی۔ جب وہ کسی نماز کے بعد بازار چلا جاتا ہے تو وہاں بار بار اس کے دل میں کھٹکا ہوتا رہتا ہے کہ کہیں اذان تو نہیں ہوگئی ۔ اس طرح بار بار خیال آنا ایمان کی پختگی کی علامت ہے ۔ ایسے لوگوں کے تعلق سے کہ جن کا دل مسجد میں اٹکا رہے اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ اس دن جب کوئی اور دوسرا سایہ نہ ہوگا اپنا سایہ رحمت عطا کریں گے ۔