دُلہا سعودی کا ، کیس ڈاوری کا
جوان بچی گھر میں بیٹھی ہوئی ہے اور شادی کا انتظار کرتے کرتے اس کی جوانی ڈھلتی جارہی ہے ، حرص ولالچ کے مارے والدین صرف یہ سوچ کر خاموش بیٹھے ہیں کہ ہماری بچی کی شادی تاخیر ہی سے صحیح مگر کسی ایسے نوجوان سے کریں جو اچھا ، خوبصورت (اگرچہ کہ خوب سیرت نہ ہو) اور سعودی میں ملازم ہو۔ (اس بات سے بھی غرض نہیں کہ خواہ لڑکا سعودی میں بھنگی ہی کا کام کررہا ہوں اور یہاں یہ بتائے میں میں ڈیفنس میں انجینئر ہوں ) اور اس کے پاس سعودی کا ویزا ہو یا کم از کم ایسا شخص ہو جو شادی کے بعد سعودی جانے والا ہو، خیر تلاشِ بسیار کے بعد سعودی کا دلہا مل جاتا ہے اور بڑے دھوم دھام سے شادی ہوتی ہے ، شادی کے چند دنوں ہنسی خوشی دن گزارتے ہیں اور چند ماہ بعد لڑکا اپنی نئی نویلی دلہن کو ماں بہن بھائیوں کے حوالے کرکے اپنی ملازمت پر واپس لوٹ جاتا ہے ، جیسے ہی وہ روانہ ہوا یہاں لڑکی کا جینا حرام ہوجاتا ہے ، شادی کے شروع دنوں کے مزے ، سیر وتفریح ، پارکوں میں پھرنا اور رات دیر سے دونوں کا گھر لوٹنا ، یہ سب دیکھ کر جو گھر والے کڑھتے تھے اب انہیں موقع مل جاتا ہے کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالیں ، اب لڑکی پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ، ایک طرف سے ساس تنگ کرتی ہے تو دوسری طرف سے نند اور دیور کچوکے لگاتے ہیں ۔ کچھ دنوں کی راحت خواب کی طرح ختم ہوجاتی ہے اور لڑکی ظلم وستم کی چکی میں پیسنے لگتی ہے ، سسرال والے لڑکی کو ماں کے گھر بھی جانے