ٹکٹ کوڑرِی سر
’شیواجی نگر‘ سے ’عربک کالج‘ جاتے ہوئے اس نے بی ایم ٹی سی (B.M.T.C) بس میں دس روپے کا نوٹ نکا ل کر ہتھیلی میں پکڑا اور کنڈیکٹر کا انتظار کرنے لگا۔ بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ ویسے بھی یہ شام کا وقت تھا، لوگ اپنے اپنے دفاتر سے تھکے ماندے سستاتے ہوئے بوجھل قدموں کے ساتھ ، نڈھال ؛ جلد از جلد اپنے گھروں کو پہنچنے کی فکر میں تھے ۔ صبح وشام کے اوقات تو ویسے ہی بسیں بھری ہوتی ہیں ، پھر ٹیانری روڈ کی بس بھلا کیسے خالی رہ سکتی ہے جب کہ شہر کی تقریباً نصف آبادی اسی تنگ وتاریک علاقے میں ’’آباد‘‘ ہے ۔ شیواجی نگر سے عربک کالج کا کرایے نو روپے ہے ، ایک روپیہ بچے گا ، وہ سوچنے لگا۔ ایک روپے میں وہ منے کے لیے کیا لے جاسکتا ہے زیادہ سے زیادہ ایک سستے والا چاکلیٹ ہی آجائے گا اور بس۔ بیوی آج پھر طعنہ دے گی، اڑوس پڑوس کے لوگ کام سے لوٹتے وقت ہر دن کچھ نہ کچھ اپنے بچوں کے لیے مٹھائی ، کھلونے وغیرہ لاتے ہیں ، بس ایک آپ ہیں کہ جب دیکھو ، ہاتھ جھاڑے چلے آرہے ہیں ۔
’’ٹکٹ، ٹکٹ ‘‘ کنڈیکٹر ک آواز پر وہ چونک کر خیالوں کی دنیا سے نکل آیا۔ ہاتھ میں پہلے سے پکڑا ہوا دس روپے کا نوٹ اس نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ عربک کالج، وند۔ کنڈیکٹر نے اس کے ہاتھ سے نوٹ لیا ، ایک اچٹتی سی نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی ، نوٹ انگلیوں میں دباتے ہوئے اس نے بیگ سے پانچ روپے کا نیا سکہ نکالا اور اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ٹکٹ ، ٹکٹ۔۔۔ اسے اپنی پشت سے کنڈیکٹر کی آواز آنے لگی۔ اس نے حیرت سے اپنے ہاتھ میں ٹھسے ہوئے پانچ کے سکے کو دیکھا۔ کیا کرے، کیا نہ کرے؟؟