سے ہلکی سے مناسبت رکھتے ، حضرت انہیں اپنے گھر میں بلا کر جہاں ماہانہ مشاعرہ ہوتا تھا ہمت افزائی کرتے تھے ۔ حضرت نیر ربانی صاحب کے انتقال کے بعد آپ نے اپنے مکا ن میں ’’ بزم ربانی ‘‘ کے نام سے ایک ماہانہ محفل مشاعرہ کی بناء ڈالی تھی، بعد میں احباب کے اصرار پر اس بزم کا نام بزمِ انجم رکھا گیا۔
اپنی زندگی کے آخری ایام آپ نے ایک مرض کی بناء پر نہایت تکلیف سے گزارے ، بے انتہاء تکلیف کے باوجود زندگی بھر کبھی آپ نے اپنی زبان پر حرفِ شکایت آنے نہ دیا ۔ صبر وشکر کے ساتھ گزارا کرتے رہے۔ احقر کا حضر ت سے طالبعلمی کے زمانے ہی سے خادمانہ تعلق تھا، اس کے بعد بھی جب کبھی بندہ حاضر خدمت ہوتا تمام اہل خانہ کا نام لے لے کر خیریت دریافت کرتے۔ ۲۰۰۱ کی بقر عید کا دوسرا دن تھا کہ شدتِ مرض سے نبرد آزما یہ اللہ کا مخلص بندہ ہزاروں طلبہ ومتعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ کر خداوند قدوس کی جوارِ رحمت میں جا بیٹھا۔
احقر کی زندگی میں بہت مواقع ایسے آئے جب حضرت قاری محمد امداد اللہ انجمؔ صاحب کی درد مندی، خلوص، اور شفقت ومہربانیاں اسے رہ رہ کر یاد آتی رہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ اپنے اس مخلص بندے کی تقصیرات کو معاف فرماجیسا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں مجھ جیسے نالائق طالب علموں کی غلطیوں سے ہمیشہ در گذر کیا تھا اور انہی کروٹ کروٹ جنت نصیب فرما آمین۔
حضرت مولانا محمد میران صاحب باقوی ؒ
میرے استاذ ومحسن حضرت مولانا محمد میران صاحب باقوی ایک مرد با صفا اور ولی صفت بزرگ تھے ، آپ کا درس نہایت’ شیرینی‘ لیے ہوتا، اور میں سمجھتا ہوں یہ لفظ