تو آپ ، حضرتؒ کو بلا کر پڑھواتے تھے اور اس کا جواب لکھنے کی ذمہ داری بھی مرحوم ہی کی ہوتی۔ حضرت کے اچانک وصال سے ہمیں ایسا محسوس ہورہا ہے گویا حضرت حسبِ معمول اپنے وطن گئے ہوئے ہیں ، ابھی واپس آجائیں گے ۔
حضرتؒ میں اتنی عاجزی ، انکساری ، خاطر تواضع تھی کہ اس کو الفاظ کا جامہ پہنانا دشوار ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت مرحوم کے کمرے میں بیٹھا تھا ، حضرت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے تو میں نے حضرت سے کہا کہ آپ میری اس ڈائری میں کچھ نصیحت کے جملے لکھ دیجئے ۔ تو حضرت نے اس وقت فرمایا کہ ’’رے ، اس کی کیا ضرورت ہے ، میں تو اس لائق نہیں ہوں ، میں تو بس تم لوگوں کی دعاؤں کے طفیل جنت میں جاؤں گا ‘‘ حضرت کے وہ جملے رہ رہ کر آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں ۔ خدا رب العزت ہم کو اس طرح کی عاجزی وانکساری اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ِ والا جہاں طلبہ کے ساتھ شفقت ومہربانی سے پیش آتے تھے ، اسی طرح باہر کے ہر خاص وعام سے پیش آتے تھے ، حضرت اپنے آبائی وطن شہر میل وشارم کے قاضی بھی تھے ۔ مدرسہ کی مصروفیات کے ساتھ اپنے گاؤں میں قضاوت بھی کرتے تھے ۔ جب کبھی حضرت کے پاس کوئی جھگڑا کرکے مقدمہ لے کر آتا تو آپ بہت نرم لہجہ میں دونوں فریقین کو ملا کر بھیجتے تھے ، دونوں فریقین کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ دونوں حضرت کے فیصلے سے پہلے آپس میں دشمن تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتؒ کی زبان میں اتنی تاثیر دی تھی کہ سخت سے سخت دل انسان بھی حضرت کی بات کو آسانی سے مان جاتا تھا۔ مدرسہ کو ہی حضرت نے اپنی زندگی گا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ دن و رات مدرسے ہی کی فکر رہتی تھی۔ہمہ تن مصروف رہتے ، کبھی کسی لائر کے پاس جانا ہوتا ، کبھی کسی منسٹر کے پاس جانا ہوتا ، مدرسہ