اور طالبان علوم دین کے لیے زیادہ زندہ رہے ۔ حضرت نیر ربانی صاحب بڑے حضرت کے شاگرد بھی تھے ، آپ نے بڑے حضرت سے میل وشارم کے اسلامیہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی، جب بڑے حضرت نے دارالعلوم سبیل الرشاد کی بناء ڈالی تو مولانا نیر ربانی صاحب کو تدریس کے لیے بلایا، بڑے حضرت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مولانا نیر ربانی صاحب سرکاری ملازمت کو چھوڑ کر دارالعلوم سبیل الرشاد فروکش ہوئے اور پوری زندگی دارالعلوم کی خدمت کرتے رہے۔
حضرت مولانا نیر ربانی صاحب دارالعلوم سبیل الرشادکے لیے ’’ وزیر خارجہ ‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے ،اللہ کے راستے میں تبلیغی جماعت لے کر آپ نے تقریباً ساری دنیا کا سفر کیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کئی ایک زبانوں پر اہل زبان کا سا عبور رکھتے تھے ۔ دارالعلوم سبیل الرشاد کو غیر ممالک سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تو حضرت مولانا نیر ربانی صاحب کی زبان دانی کا انہی بڑا فائدہ ہوتا۔ انگریزی زبان میں تو حضرت ید طولیٰ رکھتے تھے ، غیر ممالک کی جماعتیں دارالعلوم کی زیارت کو آتیں تو ان کے بیانات کی ترجمانی حضرت ہی فرماتے۔
دارالعلوم سبیل الرشاد کے ہر کام کو حضرت اپنا کام سمجھتے تھے، مدرسے میں کبھی مالی طور پر کچھ مشکلات پیش آتیں تو آپ کمربستہ ہوکر نکل جاتے ، اور مالی معاونت حاصل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ، آپ کا ہر ایک سے اس کے مناسب بات کرنے کا اور فرد شناسی میں ایک خاص اسلوب تھا ، مدرسہ کی ضرورت موثر پیرائے میں معاونین کے سامنے پیش کرتے ۔
طلبہ سے آپ کو ایک خاص قسم کا والہانہ لگاؤ تھا، ہمہ وقت ان کے اصلاح کی فکر