اساتذہ میں ہوتا ہے۔ آپ ’’ بڑے حضرت ‘‘ کے چھوٹے بھائی ہونے کی حیثیت سے ’’چھوٹے حضرت ‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے ، آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ منبع العلوم لال پیٹ میں حاصل کی۔اس کے بعد مظاہر العلوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی۔ پھر آپ نے اپنے مادر علمی مدرسہ منبع العلوم لال پیٹ میں سات سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اور پھردارالعلوم سبیل الرشادبلائے گئے توتا حیات دارالعلوم کے صدر المدرسین رہے ۔ افہام وتفہیم کا ملکہ خداداد تھا، آپ نے بلا کی ذہانت پائی تھی، درسِ نظامی میں معقولات ان فنون کو کہا جاتا ہے جو براہِ راست قرآن وسنت سے متعلق نہیں ، بلکہ انسانی کد وکاوش کا اس میں بڑا دخل ہے ۔ چھوٹے حضرت معقولات میں کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے ۔ منطق، ریاضی ، فلسفہ ، اور ہیئت پر حضرت کی گہری نگاہ تھی، فن ہندسہ سے طبعی وابستگی تھی، جس کا نتیجہ تھا کہ ایک آپ بذاتِ خود ایک ماہر انجیئر تھے اور تعمیراتی کاموں میں اپنے ذہانت کا لوہا منوانے والے۔ دارا لعلوم سبیل الرشاد کی عمارتیں اس کا زندہ ثبوت ہیں ۔ فن ہیئت میں مہارت کی بناء پر بیشتر مساجد کا سمتِ قبلہ آپ کی رہین منت ہے ۔
آپ ساری عمر ’’ بڑے حضرت ‘‘ کا ساتھ دیتے رہے۔ عمر میں ایک وقت وہ بھی آیا جب بڑے حضرت نے آپ کو کسی مصلحت کی بناء پر دارالعلوم سبیل الرشاد سے دور ، بلکہ بنگلور سے دور مدرسہ داؤدیہ ایروڈ میں ذمہ داری سنبھالنے کے لیے کہا تو آپ نے ناموافقتِ طبع کے باوجود بلا چون وچرا حضرت کے حکم کو مان لیا۔ ’’ اطاعتِ امیر‘‘ کا ایسا عملی نمونہ آپ نے پیش کیا ہے جو بعد والوں کے لیے بہت مشکل ہے ۔
آپ مدرسے کے امور میں ’’وزیر داخلہ ‘‘ جیسی شان رکھتے تھے ، طلبہ کے امور ،