مدرسوں کے سرپرست اور مہتمم تھے اور کن کن صوبائی وملکی تنظیموں ، تحریکوں اور جماعتوں کے سرپرست اور ذمہ دار تھے ، یہاں اس کی تفصیلات کی گنجائش نہیں ۔ مختصراً عرض ہے ، آپ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے دور تک دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ رہے ، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دارالعلوم تاج المساجد بھوپال کے رکن شوری تھے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو بلا مبالغہ سارے مسلمانانِ ہندکا متحدہ مرکز ہے ، اس کے آپ نائب صدر تھے ، آل انڈیا ملی کونسل کے سرپرست تھے ، جامعہ باقیات الصالحات ویلور کے تعلیمی کمیٹی کے رکن تھے اور کئی سالوں تک باقیات الصالحات کا جلسہ آپ کی صدارت میں منعقد ہوتاتھا۔
آپ کی وفات پر پوری امتِ مسلمہ ایک بڑے مخلص اور مدبر، صاحب بصیرت اور روحانی مقتداء سے محروم ہوگئی۔ بڑے حضرت بتاریخ ۷شوال ۱۴۱۶ھ مطابق ۲۷ فروری ۱۹۹۶ء بروز سہ شنبہ ساڑھے تین بجے خدا تعالیٰ کی جوارِ رحمت میں رحلت فرماگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اس حادثہ کی خبر برقی لہر کی طرح سارے شہر اور ملک میں پھیل گئی۔ حضرت اقدس کی شخصیت کی ہمہ گیری کی بناء پر ریاست اور ملک کے مشائخ اور علماء ، سیاسی وسماجی قائدین اور دانشوران ِتحریکات، وادارہ جات اور دوسرے ہزاروں افراد کا جم غفیرنماز جنازہ اور دیدار میں دیکھا گیا، بہت سے معمر حضرات کا کہنا تھا کہ بنگلور کی تاریخ میں اتنا بڑامجمع نماز جنازہ کے لیے نہ کبھی دیکھا گیا اور نہ کبھی سننے میں آیا۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت کی مقبولیت اور محبوبیت کا عوام اور خواص پر کتنا اثر تھا۔
عالم فانی سے بعض جانے والے اس طرح جاتے ہیں کہ ان پر کوئی روتا تک نہیں ، قرآن نے فرمایا {فَمَا َبکَتْ عَلَیْھِمُ السَمٰوٰتُ وَالاَرْض} اس کے بر خلاف