کارفرمائی سے آپ کا یہ فیض ہوا کہ خصوصاً تمل ناڈو، کرناٹک اور عموماً ملک کی دوسری ریاستیں تحریک دعوت وتبلیغ سے متعارف ہوگئیں ، صرف جنوبی ہند ہی نہیں بلکہ عالم میں دعوت وتبلیغ کی محنت کو چلانے اور اس کے حلقۂ اثر اور دائرۂ کار کو وسیع تر اور قوی تر کرنے میں حضرت اقدس کی فکر اور محنت اور دعائیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔
بڑے حضرت اخلاص وکردار اور تقویٰ وطہارت کا عظیم پیکر تھے ، مشتبہ امور سے بھی احتراز فرماتے تھے ، ہمیشہ آخرت پیش نظر رہا کرتی ، تعلیم وتربیت ، اصلاح وارشاداور دعوت ودعا کا مجسم پیکر تھے ۔ جامعہ باقیات الصالحات کے باراہتمام سے سبکدوش ہونے کے بعدحضرت والا نے بنگلور میں ورود مسعود فرمایا، آپ ہی کی جد وجہد اور آپ کے مخلص رفقاء کے تعاون سے شہر بنگلور کا پہلا بڑا تبلیغی اجتماع بتاریخ ۲۲ ربیع الاول ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۴ ستمبر ۱۹۶۰ھ بروز چہارشنبہ سبیل الرشاد کے وسیع احاطے میں منعقدا ہوا، در اصل یہ تبلیغی اجتماع دارالعلوم سبیل الرشاد کی مبارک افتتاحی تقریب کے سلسلے میں منعقد ہورہا تھا۔
بحمداللہ دارالعلوم سبیل الرشاد کی تقریبِ افتتاح تبلیغی اجتماع کی شکل میں منعقدہوئی۔ ا س طرح ریاست کرناٹک میں علومِ دینیہ کی ترویج کا دیرینہ خواب بڑے حضرت کی انتھک کوششوں اور مخلص رفقائے کار کے تعاون سے تعبیر آشنا ہوااور پورے شہر پر خوشیوں اور مسرتوں کی بہار چھاگئی۔
حضرت نے شب وروز اپنے خونِ جگر سے اس کو سینچا، اللہ تعالیٰ نے اس کو چہار دانگ عالم میں خصوصی امتیاز بخشا، نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے کونے کونے سے طالبانِ علومِ دین نے یہاں علمی تشنگی بجھائی اور آسودگی وسیرابی پائی اور اپنے اپنے ملکوں میں مدرسے قائم کرکے حضرت والا کے لیے صدقہ جاریہ کا نظم کیا۔ حضرت والا ملک کے کن کن