سے رخصت ہوئے ، سب کی آنکھوں میں غم کے آنسو تھے ، حضرت امیر شریعت اول کی صحبت کے فیض یافتگان ریاستوں اور ملکوں میں اسی ذہن صالح کے ساتھ دینی اور ملی کاموں میں مشغول ہیں ۔ حضرت کا فیض ملک اور عالم میں جاری ہے ، اصل کام یہی ہے کہ آپ کے بتائے ہوئے کاموں کو یاد کیا جاتا رہے ۔
اسی طرح مبلغ اعظم داعی کبیر حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالنپوری نے بڑے حضرت کی وفات حسرت آیات کے موقع پر مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجدمیں فرمایا تھاکہ ’’ جنوب کا ایک قیمتی ہیرا اللہ تعالیٰ نے اٹھالیا‘‘۔بڑے حضرت نے موجودہ دور کے نوجوانوں کی ذہن سازی کا جو طریقہ اختیار کیا ،وہ نبوی اسلوب سے ہم آہنگ تھا۔ شرافت ونجابت کا اصل معیار تو علم اور تقویٰ ہے ، جس کے اندر علمِ دین کا جس قدر کامل رسوخ ہوگا، اسی قدر خشیت الٰہی کا رنگ غالب ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا{ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ }اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا {اِنَّمَا یَخْشیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ }بڑے حضرت میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی، آپ کریمانہ اخلاق کے حامل تھے اور ہر آنے والے کا کشادہ دلی اور خوش روئی کے ساتھ استقبال کرتے ۔ بڑی ملاطفت اور شفقت کا معاملہ فرماتے ، آپ سے ہر ملنے والا متاثر ہوتااور جب واپس ہوتا تو فرح وانبساط کی کیفیت اس پر ہوتی۔ آپ ہندوستان کے جید علماء میں ایک خاص مقام رکھتے تھے ، علم کی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تقویٰ ، اخلاص ، توکل اور تواضع کا وصف نمایاں تھا، فکرکی بلندی، قلب کی وسعت ، اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ سچی محبت نے آپ کو مقبول عام بنا دیا تھا، عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعوت وتبلیغ کا خاص جذبہ عطا فرمایا تھااس جذبہ کی