وہ نا قابلِ تلافی ہے ، حضرت والا کے بغیر سبھی محفلیں اور مجلسیں سونی سونی نظر آتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کے بندے اور مردانِ خدا سامنے ہوں توپوری طرح پہچانے نہیں جاتے ، اور جب چلے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم نے کیا کیاکھودیا۔ بڑے حضرت سراپا شفقت ، مجسم تواضع ، انکساری ، بے نفسی ، دینی صلابت ، سنت پر استقامت اور سب سے بڑھ کر رجال سازی اور دین کے صحیح شعور کے ساتھ کام کرنے والے افراد کی ذہن سازی کی خوبیاں جو حضرت اقدس میں جمع تھیں وہ شاذ ونادر ہی کسی فرد میں جمع ہوتی ہیں ،
لَیْسَ عَلَی اللّٰہِ بُمَسْتَنْکَر
اَنْ یَجْمَعَ الْعَالَمَ فِیْ وَاحِدٍ
اور قاضی صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’مومن کے ہاں موت کا تصور وہ نہیں جو دنیا داروں کا ہے‘‘
نشانِ مردِ مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست
(مردِ مومن کی علامت میں تجھے بتاتا ہوں ، جب اسے موت آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پر تبسم رہتا ہے ۔)
حضرت امیر شریعتؒ اول زندگی بھر لوگوں سے مسکراتے ملتے رہے ، ہمیشہ ان کے نورانی چہرے پر تبسم کھلتا رہا، وہ تبسم کے ساتھ ہی دنیا سے تشریف لے گئے، کچھ لوگ دنیا میں اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں اور کچھ دوسروں کے لیے جیتے ہیں ، اور سب سے اچھا جینا نسبتِ رسالت کے ساتھ جینا ہے یعنی آدمی پوری کائنات کے لیے جئے۔ سب کے لیے اس کا سینہ کشادہ رہے اور وہ سب کے لیے فکر مند رہے ۔ امیر شریعتؒ اول کو یہ نسبت مبارکہ حاصل تھی، وہ بلا تفریق سب کے لیے تھے ، سب کے لیے جیتے تھے ، اور جب وہ دنیا