یہ اللہ کی شانِ کریمی ہے کہ اس نے اولیاء اور علماء دین کی فلک بوس شخصیات سے تاریخ کے کسی دور کو تہی دامن نہیں رکھا۔ ہر زمانے میں شخصیت ساز مراکز اور ادارے بھی وجود میں آتے رہے ہیں ، اور ان کے ذریعے اللہ کے دین کو سنبھالنے والے دین کے خدام بھی اس جہاں میں ابھرتے رہے ہیں ، اس خدائی نظام کے تحت جامع شریعت وطریقت ، استاذ الاساتذہ ، بڑے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ظہور میں آئی۔
حضرت والا ایسی ہی شخصیات مغتنمات میں سے تھے جن کی ذات گرامی اپنے آپ میں ایک انجمن تھی۔ حق تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں عظیم صفات سے اور خصائل حمیدہ سے سرفراز فرماکر امت مسلمہ کے درمیان ایک غیر متنازع اور انتہائی محترم شخصیت بنادیا تھا۔
کسی ایسی شخصیت پر قلم اٹھانا نسبتاً آسان ہوتا ہے جو ایک دو خوبیوں کی مالک یا چند صفات ہی میں امتیاز رکھتی ہو،لیکن ان افراد پر لکھنا جو عبقری صفات اور گوناگوں خصوصیات وامتیازات کے حامل ہوں ، جن کے محاسن بیشمار ہوں ، جو ان گنت خوبیوں کے مالک ہوں ، ایک طرح کا امتحان ہوتا ہے ۔ کیونکہ تمام خصوصیات کا بیان اور شخصیت کے ہر پہلو پر روشنی ڈالنابالخصوص کسی ایک مضمون میں ممکن نہیں ہوتا۔اور پھر یہ فیصلہ کرنا کہ ان اوصاف میں سے کسے موضوع بنایا جائے اور کسے چھوڑا جائے ، محال نہ سہی ، مشکل ضرور ہے ۔
حضرت والا کی اس علمی اور روحانی جامعیت کی جامع ترین تعریف قاضی القضاۃ حضرت مولانا مجاہدالاسلام صاحب قاسمیؒ، سابق صدر آل مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کے کرمہائے گراں مایہ کا ایک نمونہ حضرت مخدومی وسیدی وسندی مولانا ابوالسعود احمد اس دار فانی سے انتقال فرماکر اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون پوری ملت اسلامیہ کو جو نقصان ہوا ہے