معمولات : بڑے حضرت کے فارغ اوقات کا بیشتر حصہ کلام مجید کی تلاوت اور اس کے تدبر وتفکر میں صرف ہوتا تھا، کئی سالوں سے روزانہ دس پارے تلاوت کا معمول تھا، سفر وحضر میں تہجد کا اہتمام فرماتے تھے ، ہمیشہ اشراق وچاشت اور اوابین نیز دیگر سنن ونوافل بھی ادا فرماتے تھے ۔
نماز پنجگانہ باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا ہمیشہ بہت زیادہ اہتمام رہا تھا، اخیر عمر میں جب کہ چلنا نسبتاً دشوار ہوگیا تھا ، وھیل چیئر سے مسجد جاتے اورپانچوں نمازیں باجماعت ادا فرماتے ۔ اور عصر کو جاکر مغرب کے بعد مسجد سے واپسی پھر عشاء میں دوبارہ حاضری کا معمول تھا۔ اپنے شاگردوں اور مدرسے کے طلبہ کو تمام نوافل کی ترغیب دیتے ۔ اشراق اوابین عصر کے بعد ذکر اور مغرب اور فجر کے بعد تلاوت قرآن بشمول سورۂ یاسین اور سورۂ واقعہ، سبیل الرشاد کے معمولات میں شامل ہے ۔
بیعت وخلافت: بڑے حضرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اخلاص وللٰہیت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، لہٰذا وہ اپنے بیعت وارشاد کے سلسلے کو بھی اسی طرح پوشیدہ رکھتے جس طرح دیگر کمالات کو۔ آپ کے قریب رہنے والے بہت سے احباب ایسے ہو ں گے جن کو آج تک حضرت کے سلسلۂ بیعت کا علم نہ ہو، بڑے حضرت کو حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا الحاج محمد سعید صاحب باقوی کیرنوریؒ سے خلافت واجازت حاصل تھی، اورایک حلقہ تھا جو آپ کی رہبری میں راہِ سلوک طے کررہا تھا، بڑے حضرت قبلہ مستجاب الدعوات تھے ، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ کسی ضروری مد میں خرچ کرنے کے لیے ایک متعین رقم کی ضرورت تھی، نماز عشاء کے بعد دعا کرکے مسجد سے باہر تشریف لائے ، زمانہ حجاج کرام کی حج سے واپسی کا تھا، ایک حاجی صاحب مسجد کے باہر