انجمن نے مشورہ کرکے حضرت سے کہا کہ حضرت آپ تو بہت محنت کرتے ہیں اور ا نجمن میں کافی رقم موجود ہے ، لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ الاؤنس کے طور پر ماہانہ ایک سو روپے قبول فرمالیں ، آج سے ساٹھ پینسٹھ سال پہلے یہ بڑی بھاری رقم تھی، بڑے حضرت نے فرمایا ’’ یہ کام میں اللہ کے لیے کررہا ہوں ، ہائی اسکول سے مجھے جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ میری ضرورت کے لیے کافی ہے ، اگر اللہ تعالیٰ قیامت میں کہہ دے کہ اس محنت کا معاوضہ تم نے دنیا ہی میں لے لیا تھا تو کیا کروں گا ، لہٰذا یہ ساری محنتیں اللہ ہی کے لیے رہنے دیں ۔
اس ضمن میں بڑے حضرت اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے کہ بھائی آپ دین کے جس کام پر بھی مامور ہوں اسے بحسن وخوبی انجام دیتے ہوئے کچھ کام دین کا زائد بھی کیا کرو، لکیر کے فقیر بن کر مت رہا کرو، بحمد اللہ بڑے حضرت کی اسی مخلصانہ جد وجہد کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد افراد مسلمان ہوئے ۔۱۹۴۷ کے بعد اس راہ میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں ، تو مشورے سے عارضی طور پر اس سلسلے کو روک دیا گیا۔
دعوت وتبلیغ: بڑے حضرت قبلہ کو حضرت مولانا محمد الیاس صاحب والی دعوت وتبلیغ کی عالمی محنت سے والہانہ تعلق تھا، جنوبی ہند میں عموماًاور ضلع شمالی آرکاٹ میں خصوصاً ہر جگہ تبلیغی اسفار فرماتے ، اجتماعات کی سرپرستی فرماتے ، ۱۹۶۱؍۱۹۶۲، میں آپ نے ایک بڑی جماعت کے ساتھ ملیشیاء کا سفر فرمایا۔ جو بہت کامیاب رہا اور واپسی میں اہل ملیشیا کی ایک جماعت ہمراہ لائے تھے ، آپ نے سری لنکا کا تبلیغی دورہ بھی فرمایا تھا۔ قرب وجوار میں چھوٹے بڑے تبلیغی اجتماعات ہوتے ، حضرت اپنے ہمراہ بعض طلبہ کو لے جاتے ، ایک مرتبہ شیخ آدم صاحب قبلہ نے طلبہ کو جماعت میں لے جانے سے منع فرمایا تو آپ نے استاذ محترم کا پاس وادب ملحوظ رکھتے ہوئے طلبہ کے سلسلے کو بند فرمادیا۔