ہے ۔ خالد اپنے گھر کی طرف دیکھتا ہے ، فسادیوں نے گھر کو جلا کر راکھ بنا دیا ہے ۔
اب خالد اپنی بہن سیما کو لے کر تھانے جاتا ہے اور چھوٹی بہن کے ہاتھ جل جانے اور اسماء کے جلا دینے جانے اور گھر کو راکھ بنانے کے بارے میں رپورٹ لکھانا چاہتا ہے تو پولیس والے اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اوراس کو دھتکار کر تھانے سے بھیج دیتے ہیں ۔ وہ مایوس ہوکر اپنی چھوٹی بہن کو لے کردواخانے آتا ہے ، لوگوں کا اژدحام زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ قطار میں کھڑ ا ہوجاتا ہے ، چھوٹی بچی درد ناقابل برداشت ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر اپنے بھیا کے کاندھے پر دم توڑ دیتی ہے ۔جیسے ہی ہ دم توڑ دیتی ہے خالد بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے۔محلے کے نوجوان اس کو قریبی دواخانے میں داخل کرکے اس کی بہن کی تجہیز وتکفین کردیتے ہیں ۔ جب خالد کو ہوش آتا ہے تو سیما کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی ہوتی ہے کہ بھیا مجھے بچالو مجھے بہت درد ہورہا ہے ۔ یہ آواز کانوں میں گونجنے کے بعد اس پر دوبارہ غشی طاری ہوجاتی ہے ۔ جب افاقہ ہوتا ہے تو اپنے آپ کو سنبھال کر وہ پریشان ہوکر اپنے والد کے دواخانے کی طرف دوڑتا ہے ۔ والد کو شہر میں فساد کی اطلاع ملنے پر بھی اپنے گھر اور معصوم بچوں کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں ، جیسے ہی خالد پر نظر پڑتی ہے وہ اپنے بیٹے کو پاس بلا کرکہتے ہیں کہ اپنی چھوٹی بہنوں کا اور گھر کا خاص خیال رکھنا۔ خالد اپنے والد کو حقیقت بیان کرنا ہی چاہتا ہے کہ ان کی روح داعی اجل کو لبیک کہہ دیتی ہے ۔ خالد کو پہلے تو اپنی چھوٹی بہنوں کے وصال کا صدمہ تھا ، اب یہ والد کی موت کا دہرا صدمہ ہوجاتا ہے ۔
خالد اپنے والد کے کفن دفن کا انتظام کرنے کے لیے باہر نکلتا ہے ، مگر اب بھی شہر میں کرفیو نافذ ہے ۔ ایک دو گھنٹہ کا عرصہ درمیان میں وقفہ دیا جاتا ہے ۔ سارے راستے