سے خالد اپنے والد کے لیے کچھ بھی خرید نہیں پاتا۔ اسپتال کی کینٹین میں جب جاکر دودھ اور روٹی کی قیمت معلوم کرتا ہے تو ان تمام اشیاء کی قیمت بہت ہی بڑھ گئی ہوتی ہے ۔ لیکن مجبوری کی وجہ سے اس کو انہی داموں خریدنا پڑتا ہے ، وہ اسے لے کراپنے والد کے پاس جاتا ہے ۔
خالد کی والدہ بچپن ہی میں گذر گئی تھی۔ خالد گھر میں ہوتو اس کا دل اسپتال میں رہتا ہے اور جب اسپتال میں ہوتو اس کو اپنی دونوں بہنوں کی فکر ستاتی ہے ۔ خالد شام میں چھ بجے اپنے گھر آرہا تھا ، شہر میں شا م کے چھ بجے ہی سناٹا چھایا ہواتھا ۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رات کے دو یا تین بج رہے ہیں ، ہر طرف سناٹے کا راج تھا ، خالد ڈرتا ڈرتا اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا رہا ہے ۔ اس کو دور ہی سے خاکی وردی والے دکھائی دیتے ہیں ، خالد خاکی وردی والوں سے بہت ڈرا ہوا تھا۔ خاکی وردی والے اسے بلا کر اس کا توشہ چیک کرتے ہیں ، توشہ خالی دیکھ کر گالیاں دیتے ہوئے اسے واپس بھیج دیتے ہیں ۔ خالد جیسے ہی اپنی گلی میں مڑتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ساری گلی میں آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں ، لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں اورمحلے کے نوجوان آگ بجھانے کے لیے پانی لا لا کر ڈال رہے ہیں ۔ اس قیامت صغریٰ کے عالم میں بھی شر پسند اپنی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں ، ہر ایک اپنی جان بچانے کی کوشش کررہا ہے ۔ خالد کو اپنی چھوٹی بہنوں کی فکر تھی کہ وہ کہاں ہیں اورکیا کررہی ہیں ۔ اس کے ذہن میں بڑے برے خیالات آرہے تھے کہ کہیں شر پسندوں نے اس کی بہن کو جلا تو نہیں دیا۔ خالد اسی کسمپرسی کی حالت میں کھڑا ہوا ہے کہ اس کی بہن سیمابھیا بھیا کہہ کر پکارتی ہوئی آتی ہے ۔ خالد مڑ کر دیکھتا ہے تو سیما کا ایک ہاتھ جلا ہوا ہے ، وہ بڑی بہن اسماء کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ اپنے گھر کی طرف اشارہ کرکے رونے لگتی