ممکن ہے کنڈیکٹر کے گھر میں بھی کوئی بچہ ڈائری ملک چاکلیٹ کا منتظر ہو، مگر ہم دونوں کے اس ’’سمجھوتے‘‘ سے بی ایم ٹی سی (B.M.T.C)کو نو روپے کا نقصان ہوگا۔ بی ایم ٹی سی کسی ایک فرد کا نام نہیں ، بلکہ شہریانِ بنگلور کے مجموعی مفاد سے وابستہ مشنری کا نام ہے ۔ بی ایم ٹی سی سے نو روپے غبن کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں انسانوں کے مجموعی مفاد کو نقصان پہنچایا جائے ۔
اسے اچانک محسوس ہوا کہ روزِ قیامت برپا ہے ۔ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی نمازوں کے ساتھ ، گنے چنے روزوں کے ساتھ ، خستہ حال صدقات کے ساتھ ، چھوٹی موٹی نیکیوں کے ساتھ اپنے رب کے حضور کھڑا ہوا ہے ۔ پیشی کا وقت آیا ، اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہریانِ بنگلور کا ایک جمِ غفیر اس کی طرف چلا آرہا ہے ، اپنے حقوق کے مطالبے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
دفعتاً اس نے بس میں پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ کنڈیکٹر کافی آگے بڑھ چکا تھا اس نے گلا پھاڑ کر کہا ’’ ٹکٹ کوڑرِی سر‘‘ کنڈیکٹر ، جو شاید اب تک اس کو بھول بھی چکا تھا ، پلٹ کر اسے دیکھا ، اور کرخت لہجے میں بولا ’’ این ری؟ (کیا ہے) اس نے فوراً پانچ روپے کا سکہ آگے بڑھایا اور متانت سے کہا ’’ ٹکٹ کوڑرِی سر‘‘(ٹکٹ دیجئے جناب) چاروناچار کنڈیکٹر نے چرمی بیگ میں ہاتھ ڈالا ، ایک روپے کا سکہ نکال کر اور نو روپے کی ٹکٹ کے ساتھ ایک روپے اسے دے کر پانچ کا سکہ واپس لے لیا اور برا سا منھ بناتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
اس نے ایک روپے پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی ۔ سکے کو جیب میں رکھ کر وہ سیٹ پر پشت لگا کر اطمینان سے بیٹھ گیا ، جیسے منوں مٹی کا بوجھ اس کے کاندھے سے اترگیاہو۔ ہاں اُترا تو تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مٹی کا بوجھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہوں کا بوجھ۔ (بتصرفِ قلیل)
’جرم‘ ایک ثقلِ بے کراں ہے میر
کاں یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے