کسی شخص کے مال میں ناجائز تصرف در اصل اپنے مال میں تصرف کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے ، غور کیجئے اشیاء ضرورت میں ملاوٹ کی رسم چل پڑے ، کوئی شخص گھی میں تیل ملا کر ، یا چربی ملا کر زائد پیسے وصول کرے تو لازماً یہ ہوگا کہ جب اسے دودھ خریدنے کی ضرورت ہوگی دودھ والا دودھ میں پانی ملا کر دیگا۔ مسالے کی ضرورت ہوگی ، اس میں ملاوٹ ہوگی، دوا کی ضرورت ہوگی، اس میں ملاوٹ ہوگی، تو جتنے پیسے ایک شخص نے ملاوٹ کرکے زائد حاصل کئے ، دوسرا آدمی وہ پیسے اس کی جیب سے نکا ل لیتا ہے اور اس طرح دوسرے کے پیسے تیسرا نکال لیتا ہے ، یہ بیوقوف اپنی جگہ پیسوں کی زیادتی شمار کرکے خوش ہوتا رہتا ہے مگر انجام نہیں دیکھتا کہ اس کے پاس رہا کیا؟
قیامت کے دن ایک عجیب وغریب منظر پیش ہوگا، ایک شخص حاضر ہوگا ۔ نفلی صدقات ، روزے ، حج ، نمازیں ، غرض ہر طرح کی نیکیاں اس کے نامۂ اعمال کو پُر کیے ہوئے ہوں گی ۔ وہ بڑا مسرور اور بڑا خوش ہوگا ، لیکن جب اس کی پیشی ہوگی تو معلوم ہوگا کہ اس نے کسی کا مال ناحق کھایا تھا، پس نیکیوں کا ایک ذخیرہ اٹھا کر مظلوم کو دے دیا جائے گا، پھر معلوم ہوگا کہ کسی کو گالی دی تھی ، نفل نمازیں اسے دے دی جائیں گی۔ معلوم ہوگا کہ کسی کو مارا تھا ، صدقاتِ نافلہ میں سے کمی کردی جائے گی۔ یوں ہوتے ہوتے اعمالِ صالحہ کا پورا ذخیرہ ختم ہوجائے گا لیکن مظلوموں کی فریادیں بھی باقی ہوں گی، پھر ہوگا یہ کہ ان مظلوموں کے گناہ اس کے سر ڈال دیے جائیں گے اور وہ جہنم میں ڈھکیل دیا جائے گا۔
پانچ روپے کا سکہ ہاتھ میں آتے ہی مختلف مٹھائیوں کے نام اپنے ہیولوں کے ساتھ اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اسلامی تعلیمات نے اس کی رہنمائی کی ۔ تبلیغی جماعت میں گزرے ہوئے شب وروز یاد آئے ۔ اس نے سوچا : ٹکٹ لیے بغیر پانچ روپے کا سکہ لینے کا مطلب یہ ہوا کہ بقیہ پانچ روپے کنڈیکٹر کی جیب میں چلے جائیں گے ۔