یہی وہ لمحہ ہے جہاں اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں ۔ یہ لمحہ فیصلے کالمحہ ہوتاہے ۔ یہ ساعت فیصلے کی ساعت ہوتی ہے ۔ یہ لمحہ ، یہ ساعت اپنی تنگ دامنی کے باوجود انتہائی نازک ہوتی ہے ، انسانی زندگی میں فیصلے کی یہ گھڑی ایک بار نہیں بار بار آتی ہے ، کئی موقعوں سے آتی ہے ، کئی طریقوں سے آتی ہے ، چھوٹے سے چھوٹے اور کم حیثیت افراد پر بھی آتی ہے اور ذی حیثیت عظیم شخصیات پر بھی ۔ معمولی سے معمولی کلرک پر بھی آتی ہے اور ملک کے وزیرِ اعظم پر بھی۔ راہ چلتے راہ گیروں پر بھی آتی ہے اور بلند وبالا طیارہ نشینوں پر بھی۔ یہ وقت ، یہ ساعت ، یہ لمحہ ، یہ گھڑی ، یہ پل فیصلے اور ڈسیشن کا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے نفع وضرر کو سامنے رکھ کر اپنی راہِ عمل کا انتخاب کرے ۔
دنیا کے تمام جھوٹے مذاہب کے درمیان صرف اور صرف اسلام ہی ایک ایسا سچا مذہب ہے جو اس نازک موڑ پر انسان کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے ۔ جی ہاں ، یہ اسلام ہی ہے جس نے ہمیں دوسروں کے حقوق کی مکمل پاسداری کی تعلیم دی ہے ۔ روپیوں پیسوں کی تحصیل کے کچھ ذرائع پسندیدہ ہیں اور کچھ نا پسندیدہ۔ چوری ، ڈاکہ ، دھوکہ، فریب کو ساری ہی دنیا برا سمجھتی ہے لیکن ان ذرائع کے جائز یا ناجائز ہونے کا کوئی صحیح معیار عام طور پر لوگوں کے پاس نہیں ۔ اور ہو بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کا تعلق پوری دنیا کے انسانوں کی صلاح وفلاح اور بہبودی سے ہے ، اور پوری انسانیت کی صلاح وبہبودی کی راہ وہی بتاسکتا ہے جو خود اس عالمِ انسانیت کا رب ہے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلاَ تَاکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ ۔ سود ، قمار ، دھوکہ ، فریب پر مشتمل ذرائع معاش کو حرام قرار دینے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوقِ عامہ کے لیے مضر ہیں ۔ ان کے پنجے میں خواہ چند افراد پَلیں ، بڑھیں ، لیکن ساری امت مفلسی کے گڑھے میں گرتی چلی جاتی ہے ، ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لیے حلال نہیں کہ وہ پوری انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے ،