لالہ جی نے پیار بھرے لہجہ میں پکارا۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ ہرگز اچک کر نینا کو پکڑ نہیں سکتے ۔ نینا خود ہی چاہے تو واپس آسکتی ہے ورنہ اسے پکڑنا ان کے بس کی بات نہیں ۔
نینا نے ایک نظر لالہ جی کو دیکھا اور ایک نظر نیچے مردہ پڑے ہوئے نینو کو۔
’’شکریہ نینو ، تمہاری نصیحت آموز باتوں نے مجھے آزادی کی وہ قدر وقیمت نہیں بتائی جتنا کہ تمہاری موت نے مجھے سمجھا دیا۔ لالہ تمہیں پنجرے سے نہیں نکالتا تھا ، تو تم نے دنیا ہی سے نکل جانے کے سوچ لیا۔ خیر۔ آج تمہاری بدولت میں آزاد ہوں ، لیکن صرف جسمانی طور پر آزاد نہیں بلکہ ذہنی وفکری طور پر بھی آزاد ہوں ۔ میں سمجھ گئی ہوں کہ لالہ ہمارا محافظ نہیں تھا ، وہ تو اپنے مفادات کا محافظ تھا۔ اسے ہم سے محبت نہیں تھی ، اسے تو اپنی خواہشات کی تکمیل سے محبت تھی۔ اگر اسے ذرا بھی تم سے محبت ہوتی تو وہ تمہیں دفن ضرور کرتا ، تمہیں یوں کیڑے مکوڑوں کے حوالے نہ کرتا۔ لیکن وہ بھلا تمہیں دفن کیوں کرے گا ، تم زندہ تھے تو اس کے کام کے تھے ، مردہ طوطے کو لے کر وہ کیا کرتا۔ آہ نینو! لیکن تم نے مجھے یہ سمجھانے کے لیے بہت بڑی قیمت چکائی ۔ بہت بڑی قیمت۔ نینا نے کہا اور لالہ جی کو متاسف وپریشان چھوڑ کر ہنستی ہوئی چلی گئی ۔
قفس کی بندشوں سے آسمان کی وسعتوں کی طرف…
ذہن کی اسیری سے خودمختارانہ فکر وخیال کی طرف…
رزق کی تنگی سے فراخی کی طرف…
غلامی سے آزای کی طرف…